ویسے تو دنیا بھر کی افواج کے سپہ سالاروں کو تب ہی کوئی یاد کرتا ہے جب وہ پیشہ ورانہ جنگی چیلنجز سے بخوبی نبرد آزما ہوتے ہیں اور ملک و قوم کو فتح سے ہمکنار کرتے ہیں۔ تاہم، پاکستان میں چونکہ بیانیہ بنانے کا فریضہ میڈیا کے سر ہوتا ہے، اس لئے مخصوص شخصیات اور میڈیائی حلقوں سے مدحت سالار کا ایک سیل رواں جاری ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی آرمی چیف کی مدحت میں لکھے گئے کالمز یا بیان کیے گئے واقعات کا content analysis یا موادی تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعریف و توصیف اور فضیلت ثابت کرنے کے لئے مذہبی حوالوں کا استعمال لازم و ملزوم ہے۔
جنرل ایوب خان سے لے کر موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تک تمام تر آرمی چیفس کو اعلیٰ و افضل مذہبی حوالہ جات سے ہی ثابت کیا جاتا رہا ہے۔
جنرل ایوب خان کے دور کے اخباری تراشے یہ بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ کنونشنل جس کے ناتواں کندھوں پر ایوب خان کو مسند اقتدار پر فائز رکھنے کا بار رہا اس پر الزام تھا کہ اس نے ایک ایسا پوسٹر بھی بنایا جس میں جنرل ایوب خان کو حضرت ایوب علیہ السلام سے تشبیہ دی گئی تھی۔ نوائے وقت لاہور میں یکم جنوری 1965 کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق شہر میں کنونشنل مسلم لیگ کی جانب سے ایک پوسٹر دیواروں پر چسپاں کیا گیا جس میں لکھا گیا ہے کہ ’’اللہ پاک نے ۔۔۔ بنی اسرائیل کے پیغمبر ایوب علیہ السلام کا درجہ صدر ایوب کو بخشا‘‘۔
اسی طرح جامعہ اشرفیہ لاہور کے منتظم مولانا عبدالرحمان اشرفی سے منسوب ایک تراشہ ایسا بھی ہے جس میں ان سے منسوب بیان ہے کہ جنرل صاحب (جنرل ضیا الحق) کو نبی اکرم ﷺ کی جانب سے کئی سلام آئے کئی پیغام پہنچے۔ یاد رہے کہ جامعہ اشرفیہ کے مولانا محمد مالک کاندھلوی جنرل ضیا کے قریبی رشتہ دار بھی تھے۔ اب قریبی ساتھی کا خالہ زاد اگر ملک کا سپہ سالار ہو اور پھر ملک پر قابض ہو کر خود کو اس کا صدر بھی قرار دے لے، اور بعد ازاں آپ کو ملک کے چند اہم ترین مدرسوں میں سے ایک کا سربراہ بھی مقرر کر دے تو کیا آپ اس کے لئے چند توصیفی کلمات بھی نہیں کہہ سکتے؟ اب مولانا عبدالرحمان اشرفی سے یہ تو امید کی نہیں جا سکتی کہ وہ جنرل صاحب کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر تبصرہ کرتے۔ وہ تو اپنی core competency سے ہی کوئی کہانی گھڑنا تھی۔ سو گھڑ لی۔
حالیہ طور پر 92 نیوز سے منسلک صحافی ہارون الرشید جنرل اشفاق پرویز کیانی کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے۔ اسی دور میں ان کا ایک کالم بہت مشہور ہوا تھا جس میں انہوں نے اپنے ’درویش‘ کی طرف سے اعلان کیا تھا کہ کل رات حضرت عمرؓ نے جھنڈا طالبان سے لے کر کسی اور کو تھما دیا۔ یاد رہے کہ یہ کالم ایک ایسے موقع پر چھپا کہ جب کئی سال تک طالبان کی حمایت کرنے والے صحافی بشمول ہارون الرشید کے، نئے نئے مشرف بہ کیانی ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے کالم میں ’کسی اور‘ کی وضاحت تو نہیں کی لیکن اشارہ کس طرف ہے، یہ زیادہ وضاحت کا طلبگار بھی نہیں۔
جنرل راحیل شریف کی تعریف و توصیف میں مذہبی حوالوں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس حوالے سے مذہبی رہنما امیر حمزہ کا دنیا اخبار کے لئے لکھا گیا ایک کالم بہت مشہور ہوا جس میں انہوں نے جنرل راحیل شریف کے نام کا عربی ماخذ بیان کر کے ان کے پاک چین راہداری میں کردار کو عین اسلامی اور ان کے نام کے مطابق قرار دیتے ہوئے انہیں پاک چین راہداری کے لئے لازم و ملزوم قرار دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’’الرحیل اسے کہتے ہیں جو ایک جگہ سے دوسری جگہ یا ایک کے بعد دوسرا قدم اٹھانے میں اور چلنے میں بڑا مضبوط ہو۔ قارئین کرام! میں جب جنرل راحیل شریف کو دیکھتا ہوں تو انہی خوبیوں کا حامل پاتا ہوں ۔۔۔ جنرل صاحب نے چین کو پاک فوج کی طرف سے گارنٹی دی ہے کہ اسے مکمل کر کے چھوڑیں گے‘‘۔
پھر جنرل قمر جاوید باجوہ آئے تو اوریا مقبول جان نے لکھا کہ ان کی تعیناتی براہ راست رسول اکرم ﷺ کے حکم پر ہوئی ہے۔ اور ایک روحانی شخصیت کا خواب بھی سنایا جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہہ کی بارگاہ رسالت میں سفارش بھی جنرل باجوہ کے کام آئی۔
یاد رہے کہ جنرل راحیل شریف کو CPEC کا گارنٹر قرآن سے ثابت کرنے والے امیر حمزہ، جو کہ جماعت الدعوۃ کے رہنما بھی ہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی پر اپنے کالم میں کچھ یوں مدح سرا ہوئے کہ ’’ہمارے نئے آرمی چیف کا نام قمر جاوید ہے۔ قمر عربی میں چاند کو کہتے ہیں۔ جس طرح چاند کے آنے سے پہلے اس کے طلوع کا انتظار ہوتا ہے، جنرل صاحب کی آمد سے پہلے بھی یونہی انتظار تھا اور ہر کان اسی خبر کی طرف لگا ہوا تھا۔ پھر جیسے چاند کے آنے پر عید ہو جاتی ہے، ان کے آنے پر ہمیں عید کی خوشی ملی۔ جاوید فارسی کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے ہمیشہ رہنے والا۔ جنرل صاحب اس عام چاند کی طرح نہیں جو ہر چند دن بعد پہلے چھوٹا ہوتا ہے پھر غائب ہو جاتا ہے بلکہ آپ ہمیشہ رہنے والے چاند ہیں۔۔۔‘‘
یہ علیحدہ بات ہے کہ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ پر امیر حمزہ کی خوشامد کا بظاہر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایک کے دور میں امیر حمزہ کی جماعت الدعوۃ پر پابندی لگی جب کہ دوسرے کے دور میں یہ پابندی نہ صرف برقرار ہے بلکہ جماعت الدعوۃ کے تمام مدرسوں کا انتظام و انصرام بھی حکومتِ پاکستان نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔