1947 تا 2019: پاکستانی فوج کے سپہ سالار، اور مدت میں توسیع، تاریخ کیا بتاتی ہے؟

1947 تا 2019: پاکستانی فوج کے سپہ سالار، اور مدت میں توسیع، تاریخ کیا بتاتی ہے؟
پاکستان بننے وقت ملک کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل فرانک میسروی کے بعد 1948 میں جنرل گریسی نے ملکی افواج کی کمان سنبھالی۔ یہی وہ کمانڈر انچیف تھے جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کو کشمیر میں فوج بھیجنے سے انکار کیا تھا۔ جنرل گریسی پاکستانی فوج کے آخری برطانوی سربراہ ثابت ہوئے اور ان کے بعد فوج کی کمان پہلے پاکستانی کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے 17 جنوری 1951 کو سنبھالی۔ ایوب خان نہ صرف سات سال تک خود کمانڈر انچیف رہے بلکہ یہ عہدہ انہوں نے جنرل موسیٰ خان ہزارہ کے حوالے صرف اس وقت کیا جب 1958 میں انہوں نے اسکندر مرزا کو ان کے عہدے سے ہٹا کر خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کا فیصلہ کیا۔



واضح رہے کہ سات سال کے اس عرصے میں کمانڈر انچیف تو ایک ہی رہا لیکن وزرائے اعظم سات تبدیل ہو گئے۔ لیاقت علی خان، سر خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، چودھری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر اور سر فیروز خان نون سب اسی سات سال کے عرصہ میں فارغ ہو گئے۔ اور اس کے بعد یہ عہدہ ہی ختم کر دیا گیا، جو 1971 میں جا کر دوبارہ بحال ہوا اور نورالامین 13 دن کے لئے وزیر اعظم بھی بنے۔



مگر 20 دسمبر 1971 کو یہ عہدہ پھر ختم کر دیا گیا جو کہ 1973 کا آئین منظور ہونے کے بعد جا کر بحال ہوا، اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم بنے۔ لیکن اس دوران ملک ٹوٹ چکا تھا، اور 1958 سے لے کر 1971 تک کمانڈر انچیف کے عہدے میں صرف ایک بار تبدیلی کی گئی، جب 1966 میں جنرل موسیٰ خان ہزارہ کی جگہ جنرل یحییٰ خان کو تعینات کیا گیا۔



اگلے پانچ سال وہ ملک کے کمانڈر انچیف رہے۔ اس دوران مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا۔ مگر بڑی مشکل سے ان سے عہدہ چھڑوایا گیا اور 20 دسمبر 1971 کو لیفٹننٹ جنرل گل حسن خان کو کمانڈر انچیف کا عہدہ دے دیا گیا لیکن انہیں جنرل کے عہدے پر ترقی نہیں دی گئی۔ اور ڈھائی ماہ سے بھی کم عرصے میں انہیں مری لے جا کر عہدے سے ہٹا دیا گیا، اور ان کے ساتھ ہی یہ عہدہ بھی ختم کر دیا گیا۔

3 مارچ 1972 کو جنرل ٹکا خان پاکستان کے پہلے چیف آف آرمی سٹاف بنے۔ وہ اس عہدے پر یکم مارچ 1976 تک براجمان رہے اور ان کے بعد یہ عہدہ جنرل محمد ضیاالحق نے سنبھالا۔ صرف ایک سال تین ماہ کے اندر جنرل ضیا نے ایک کامیاب تحریک کے بعد 5 جولائی 1977 کو بھٹو حکومت کا تخت الٹ دیا اور خود ملک کے صدر بن بیٹھے۔ ابتدا میں انہوں نے تین ماہ میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا لیکن یہ تین ماہ 1985 میں جا کر پورے ہوئے۔ اس دوران ملک کے پہلے وزیر اعظم کا عدالتی قتل ہو چکا تھا، اور ملک کو افغان جہاد کی آگ میں بھی جھونکا جا چکا تھا۔ وطنِ عزیز اس آگ میں آج بھی جل رہا ہے۔



جنرل ضیا 1988 تک ملک کے آرمی چیف رہے اور پھر ایک حادثے کا شکار ہو کر ہی اس عہدے سے علیحدہ ہوئے جب 17 اگست 1988 کو ان کا جہاز بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔

جنرل مرزا اسلم بیگ کو فوری طور پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کے عہدے سے ترقی دے کر ملک کا آرمی چیف تعینات کیا گیا۔ نئے انتخابات ہوئے، جن کے نتیجے میں بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت وجود میں آئی۔ اپنی آئینی مدت کے تین سال پورے کرنے کے بعد جنرل بیگ نے یہ عہدہ چھوڑ دیا اور جنرل آصف نواز جنجوعہ 16 اگست 1991 کو ملک کے نئے آرمی چیف بنے۔ تاہم، جنرل آصف نواز جنجوعہ 8 جنوری 1993 کو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے اور 11 جنوری کو جنرل عبدالوحید کاکڑ نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔ یہی جنرل کاکڑ ہیں جن کے نام سے کاکڑ فارمولا منسوب ہے۔



کاکڑ فارمولے کا پس منظر یہ تھا کہ 1993 میں جب اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کے درمیان لڑائی عروج پر پہنچ گئی تو غلام اسحاق خان نے 58-2B کے تحت ان کی حکومت برطرف کر دی۔ نواز شریف سپریم کورٹ گئے تو اس فیصلے پر عملدرآمد روک دیا گیا۔ اس موقع پر جنرل کاکڑ نے خود سامنے آ کر فیصلہ کروایا، اور نواز شریف کے ساتھ غلام اسحاق خان کو بھی استعفا دے کر گھر جانا پڑا۔

جنرل کاکڑ اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد 12 جنوری 1996 کو ریٹائر ہو گئے۔ اور ان کی جگہ نئے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے لی۔ چند ہی ماہ بعد صدر فاروق خان لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت بھی برطرف کر دی۔ مگر نواز شریف نے 1997 انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تو سب سے پہلے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی برطرفی ہوئی، اور اسی دن صدر فاروق لغاری نے بھی استعفا دے دیا۔ 2 دسمبر کو یہ دونوں حضرات گھر گئے اور دس ماہ بعد 6 اکتوبر 1998 کو وزیر اعظم نے جنرل جہانگیر کرامت کو بھی برطرف کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل کرامت کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے تحت فوج کی حکومتی معاملات میں براہِ راست مداخلت کو قانونی قرار دینے کی تجویز نواز شریف صاحب کو بے انتہا ناگوار گزری تھی۔



6 اکتوبر 1998 کو جنرل مشرف کو آرمی چیف کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ اور ٹھیک ایک سال چھ دن بعد انہوں نے نواز شریف حکومت برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ نواز شریف کو جیل میں ڈالا گیا، اور دسمبر 2000 میں جلا وطن کر دیا گیا۔ بینظیر بھٹو پہلے ہی جلا وطن تھیں۔ مشرف صاحب نے مسلم لیگ ق ایجاد کی اور آٹھ سال بلا شرکت غیرے ملک پر حکمرانی کرنے کے بعد اکتوبر 2007 میں باوردی صدر کا انتخاب بھی لڑا۔ تاہم، 28 نومبر 2007 کو انہوں نے یہ عہدہ چھوڑ کر جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے کر دیا۔ 27 دسمبر کو راولپنڈی میں بینظیر صاحبہ کی شہادت ہوئی، اور 18 فروری کو نئے انتخابات ہوئے جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے مسلم لیگ ق کو پچھاڑ دیا۔ اور چند ہی ماہ میں صدر کے مواخذے کی دھمکی دی جس کے بعد جنرل مشرف نے صدارت سے استعفا دے دیا۔



جنرل کیانی کی مدت ملازمت نومبر 2010 میں ختم ہو رہی تھی لیکن ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دی گئی۔ یہ پہلے آرمی چیف تھے جنہیں سویلین حکومت نے توسیع دی۔ اس سے قبل تمام آرمی چیف جن کی مدت میں توسیع ہوئی، انہوں نے یہ توسیع خود ہی لے لی تھی۔

نومبر 2013 میں جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے، اور اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد نومبر 2016 میں ریٹائر ہو گئے۔ ان کے بعد جنرل باجوہ آرمی چیف بنے، جو تاحال آرمی چیف ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.