اگر میں سپہ سالار ہوتا؟

اگر میں سپہ سالار ہوتا؟
پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کو 11 سال پورے ہو چکے ہیں۔ تاہم، عسکری اثرات آج بھی اقتدار کے ایوانوں اور اعلی عدلیہ کے برامدوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگست 2019 میں سپہ سالار کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع نے یہ تاثر دیا تھا کہ ہم پرانے پاکستان میں ہی رہ رہے ہیں اور تبدیلی کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔

تاہم مہنگائی میں پسی عوام اور خوف میں مبتلا میڈیا اور دانشور طبقے نے اسے نظریہ ضرورت سمجھ کر ہضم کر لیا اور ڈھکی چھپی تنقید کے ساتھ  اس سے اچھی امیدیں باندھ کر ٹماٹروں کی قیمت اور نواز شریف کی بیماری میں الجھ گئے۔ جب سپہ سالار کی پہلی مدت ملازمت کو ختم ہونے اور پھر سے تین سالہ دور کے شروع ہونے میں 72 گھنٹے رہ گئے تھے تو اعلیٰ ترین عدلیہ نے چپ کا جو روزہ رکھا تھا وہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے پس منظر میں ٹوٹ گیا اور پچھلے دو دنوں میں سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ عدالت سے ہوتا ہوا بازاروں اور گلی کوچوں میں آگیا ہے۔

مانا کہ حکومت کا طریقہ کار غلط تھا اور ہے۔ طریقہ کار کی غلطی دانستہ بھی ہو سکتی ہے اور نااہلی کی مرہون منت بھی قرار دی جا سکتی ہے۔ لیکن، کیا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اور معزز چیف جسٹس صرف طریقہ کار یا دستورالعمل کو ٹھیک کرنے کے لیے سپہ سالار کو شٹل کاک بننے کا تاثر دے رہے ہیں یا اس کا کوئی اور پہلو بھی ہے؟ کیا اعلیٰ عدلیہ توسیع کے جواز کی تلاش میں ہے لیکن تذبذب کا شکار ہے؟

 

اگر میں سپہ سالار ھوتا تو پہلے دن کی عدالتی کارروائی کے بعد ملکی تاریخ پر نظر ڈالتا۔ قیام پاکستان سے لے کر 1972 تک سرکاری طور پر سپہ سالار کا عہدہ کمانڈرانچیف کے لقب سے پہچانا جاتا تھا۔ ان 24 سالوں میں تین سپہ سالار اس عہدے پر تعینات ہوئے جن میں جنرل ڈگلس گریسی پہلے اور واحد سپہ سالار تھے جنہوں نے تین سال کی مدت پوری کی اور اپنے ملک برطانیہ واپس چلے گئے۔

جنوری 1951 میں جنرل ایوب خان اس عہدے پر تعینات ہوئے اور اگلے 7 سال یعنی 1958 تک اس عہدے پر فائز رہے اور پھر ملک میں پہلا باضابطہ، سرکاری اور ظاہری مارشل لا لگا دیا۔ اس دوران سیاسی افق پر ناصرف ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان شہید ہوئے بلکہ 6 وزیراعظم آئے اور چلتے بنے۔ لیاقت علی خان کے بعد وزیراعظم ناظم الدین کی حکومت کو اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے ڈیڑھ سال بعد برخاست کر دیا۔ ملک کے تیسرے وزیراعظم محمد علی بوگرہ بھی دو سال چار ماہ بعد اگست 1955 میں سیاسی اور عسکری حادثے کا شکار ہو گئے۔ اگست 1955 سے اکتوبر 1958 تک چار وزیراعظم آئے اور چلے گئے، جن میں سب سے زیادہ چوہدری محمد علی اور حسین سہروردی نے ایک سال ایک ماہ اس عہدے پر فائز رہے۔ جبکہ اسماعیل چندیگر صرف 30 دن بعد تحریک عدم اعتماد کا شکار ہو گئے۔ فیروز خان مارشل لا لگنے تک اپنے 8 ماہ پورے کر چکے تھے۔

1958  کے مارشل لا نے پاکستانی اقتدار میں 7 سال سے پیدا بھونچال کو نہ صرف روکا بلکہ ایک ٹھہراؤ بھی پیدا کیا۔ قوم کو اقتدار میں ایک تسلسل دیکھنے کو ملا کیونکہ جنرل ایوب نے صدر مملکت کا عہدہ سنبھال کر اپنے آپ کو خود ہی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی اور جنرل موسی خان کو کمانڈر انچیف مقرر کر دیا۔ ان کی حیثیت سیاسی میدان کے جونیجو، جمالی، گیلانی اور عباسی سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ اپنی مودبانہ اور فرمانبردار صلاحیتوں کی وجہ سے 8 سال تک کمانڈر انچیف کے عہدے پر برقرار رہے۔ اس وقت کے صدر اور فیلڈ مارشل ایوب خان نے ستمبر 1966 میں جرنل یحیی خان کو کمانڈر انچیف کے عہدے پر تعینات کیا۔ ایوب خان 18 سال سپہ سالار رہے، جس میں 7 سال کمانڈرانچیف اور 11 سال فیلڈ مارشل اور صدر پاکستان کا عہدہ شامل ہے۔ آخر 1969 میں انتہائی ناگزیر حالات میں استعفیٰ دے دیا اور اس وقت کے کمانڈرانچیف جنرل یحییٰ خان نے اپنے آپ کو صدر پاکستان تعینات کر دیا اور پاکستان کے دولخت ہونے تک دونوں عہدوں پر فائز رہے اور پھر عزت سے گھر چلے گے۔

 

جب ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کو دولخت کرنے میں اپنا حصہ ڈال دیا تو وہ اس ٹوٹے ہوئے پاکستان کے صدر چنے گئے، بھٹو نے ایک سال 7 ماہ صدر کا عہدہ سنبھالا۔ اس دوران انھوں نے 1972 میں کمانڈرانچیف کے عہدے کو بدل کر چیف آف آرمی سٹاف کا لقب متعارف کرایا اور جنرل ٹکا خان کو چُنا جنہوں نے 4 سال تک خدمات سرانجام دیں۔ بھٹو اس تراشے پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور ملک کو 1973 کا آئین بھی دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 1976 میں ضیاالحق کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر تعینات کر کے قوم اور فوج کو ایک سرپرائز دیا۔ سپہ سالار کا لقب بدلنے سے نظام نہیں بدلا اور نہ ہی روایات بدلی۔ ایک سال بعد جنرل ضیاالحق نے بھٹو کو رخصت کر دیا اور پھر جنرل ضیا آخری سانس یعنی 17 اگست 1988 تک چیف اور صدرپاکستان رہے۔ اس دوران امریکہ نے جنرل صاحب کی مدد سے افغانستان میں روس کو سرد جنگ کی فیصلہ کن شکست دی۔ اندرونی محاذ پر حکومت نے مذہب کا معاملہ معاشرے سے چھین کر اس میں جہاد کا ایسا تڑکا لگایا کہ یہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔

اگلے گیارہ سال (1988 سے 1999) میں چار وزیراعظم  چنے گئے۔ سپہ سالاروں کی فہرست میں جنرل اسلم بیگ اور جنرل وحید کاکڑ نے تین، تین سال کا عرصہ پورا کیا، جب کہ جنرل آصف نواز ایک سال چار ماہ بعد دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ چوتھے سپہ سالار جنرل پرویز مشرف نے تعیناتی کے ایک سال کے اندر نواز شریف کو فارغ کر کے ملک میں ایک اور بڑے مارشل لا کی تاریخ لکھ ڈالی۔ سپہ سالار کا عہدہ برقرار رکھتے ہوئے وہ پہلے چیف ایگزیکٹیو بنے اور صدر کے لیے غیر سیاسی اور غیرجماعاتی ریفرنڈم بھی کروایا۔ پھر مینار پاکستان پر یونیفارم میں عوامی جلسے سے خطاب کیا اور سیاسی بیساکھیوں کا سہارا لیتے ہوئے ظفراللہ جمالی، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز جیسے سیاسی کھلاڑیوں کو تاش کے پتوں میں حکم کی بیگم  کی طرع استمال کیا اور صدر کا عہدہ اگلے 9 سال برقرار رکھا۔ اس دوران امریکہ کو پاکستان میں بوٹس آن گراؤنڈ کا موقع بھی دیا جسے قوم آج تک بھگت رہی ہے۔

اپنی جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کے چیدہ کارناموں میں کارگل، کشمیر پر یوٹرن، لال مسجد اور چیف جسٹس کی برخاستگی جیسے کارنامے شامل ہیں۔ بیرونی طور پر پاکستان نے دوغلے پن اور جھوٹا ہونے کا خطاب حاصل کیا اور اندرونی طور پر پاکستانی طالبان اور دہشت گردی کا تحفہ بھی قوم کو ملا۔ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے 9 سال میں انہوں نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ ان کی چھڑی نومبر 2007 میں جنرل کیانی نے چھین لی اور سوٹ 2008 میں زرداری صاحب نے پہن لیا۔

جب جمہوریت کا 2008 میں دوبارہ آغاز ہوا تو جنرل کیانی سپہ سالار کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے فوج کے ریٹائرڈ افسروں کی سول میں تعیناتی کی واپسی جیسے نمائشی اقدامات کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ افواج پاکستان کو سیاست سے دور کر دیا گیا ہے اور یہ ذمہ داری جنرل کے عہدے سے منسوب کر دی۔ جنرل کیانی نے دنیا کی واحد سپر پاور کی سرپرستی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے کیانی ڈاکٹرین متعارف کرائی۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر اس میں اپنی ذاتی ریلوینس کو امریکی اور داخلی نظر میں لازم قرار دلوایا۔ جنرل کیانی نے بلاشبہ سیاست میں مداخلت جاری رکھی۔ جہاں انہوں نے جنرل پاشا کو تیسری سیاسی قوت تیار کرنے کا حکم دیا تو ساتھ ساتھ نواز شریف کو گجرانوالہ سے واپس لاہور بھیج کر یہ تاثر دے دیا کہ میں نے تجھے چن لیا تو بھی مجھے چن۔ اس دوران نہ صرف حقانی منترہ میڈیا کی زینت بنا بلکہ محترم زرداری صاحب کو علاج کے لیے دبئی بھی جانا پڑا۔

 

جنرل کیانی نے 2010 تک اقتدار کے ایوانوں میں اپنی گرفت کو اس حد تک مضبوط کرلیا کہ جمہوری دور میں پہلی دفعہ سپہ سالار کی مدت میں اس عہدے کی آئینی مدت جتنی توسیع کی گئی۔ خود جنرل کیانی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ جو کروڑوں میں ایک ہے وہ میں خود ہی ہوں۔ یہ وہی جنرل کیانی ہیں جن کے ڈی جی ایم او اور اے جی جیسے عہدے پر تعینات جنرل آج کے پاکستان میں سی آئی اے کے لیے جاسوسی کرنے پر پندرہ سال کی سزا بھگت رہے ہیں اور اس ہمت کا سہرا موجودہ سپہ سالار کو جاتا ہے جسے اب ہم نے عدالت میں گھسیٹ دیا ہے۔

آج کے پاکستان میں جنرل کیانی کے پاس نہ ہی بولنے کے لئے الفاظ ہیں اور نہ ہی قوم کو دکھانے کے لئے چہرہ ہے۔ اسی لیے وہ نہ ہی نظر آتے ہیں اور نہ ہی بولتے ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں نہ ہی جنرل پاشا کامیاب ہوئے اور نواز شریف نے بھی وزیراعظم بننے کے بعد دغا دے دیا اور جنرل راحیل شریف کا انتخاب کیا۔ یوں راحیل شریف نے نومبر 2013 میں چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ سنبھالا۔ انہوں نے تین سال تک خدمات سرانجام دیں۔ اگرچہ جمہوریت پسند قوتوں نے قدم بڑھاؤ راحیل شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے بھی لگائے مگر سپاہ سالار اپنے تین سالہ عہد میں سیاسی اور عسکری میدان میں ابہام کا شکار رہے۔ دھرنے کے معاملات نے فاصلوں کو بڑھا دیا۔ تاہم، سپہ سالار تین سال تک  ابہام کی کیفیت سے باہر نہ آسکے اور آخر تک غیر یقینی صورتحال کا شکار رہے۔ نوازشریف نے موقع دیکھتے ہی نومبر 2016 میں جنرل باجوہ کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر تعینات کر دیا اور راحیل شریف پیا گھر چلے گئے۔ جہاں سے وہ کشمیر کے نام پر واپس آنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں کچھ خبر نہیں۔

نواز شریف نے جنرل باجوہ کو اسی طرح کا سرپرائز دیا جیسے بھٹو نے ضیا کو اور نوازشریف نے پرویز مشرف کو دیا تھا۔ نوازشریف نے اپنے وسیع تجربے اور منطقی سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے قبلہ درست کرنے کے بجائے قبلہ میں تعینات افسران کی ترقی اور تعیناتی میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا اور ڈان لیکس کے بعد جاری آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ کو واپس کروا کے اس منطقی سوچ کے ہونے کا عملی ثبوت بھی دیا۔ حالات نے رخ بدلا اور نہ صرف میاں صاحب کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ وہ اڈیالہ جیل سے ہوتے بڑی منتوں، تدبیروں، بہانوں، کوششوں اور منطق سے لندن اپنے تاریخی فلیٹس میں پہنچے ہیں۔

 

اگر میں سپہ سالار ہوتا تو اس تاریخی پس منظر کے بعد عدالت کی دوسرے دن کی کارروائی کا عملی اور حقیقی جائزہ لیتا۔

پاکستان میں جمہوری قدروں اور سول بالادستی کو بحال کرنے کا پہلا موقع ذوالفقار علی بھٹو کو ملا۔ بھٹو کے اقتدار کا پودا عسکری گملے میں پروان چڑھا تھا۔ بھٹو کی شخصیت اور اندر کا خوف تھا کے اس نے ضیاالحق کو سپہ سالار کے لیے چنا، جس نے ایک سال بعد ہی ملک کے سیاسی نظام کو لپیٹ دیا اور سویلین بالادستی اور آئین  اگلے 11 سال عسکری بیرکوں میں قید ہو گیا۔ پاکستان میں جمہوری قدروں اور سول بالادستی کو بحال کرنے کا دوسرا موقع میاں نوازشریف کو ملا جب اس وقت کے سپہ سالار جنرل جہانگیر کرامت نے تین سال کی مقررہ مدت سے ساڑھے تین مہینے پہلے استعفی دے دیا اور امریکا چلے گئے۔

تاہم، نواز شریف نے غیر متوقع طور پر پرویزمشرف کو سپہ سالار کے عہدے پر تعینات کر دیا جس کا پہلا نقصان پاکستان اور پاک فوج نے کارگل کے بے وقتی اور غیر منطقی معرکے کی صورت میں دیکھا۔ اس معرکے کے بعد اس وقت کے سپہ سالار پچھلے قدم پر کھیل رہے تھے مگر نواز شریف اس موقع کو جمہوری بالادستی کے لئے استعمال کرنے میں اس حد تک ناکام ہوئے کہ اس معرکے کے پانچ ماہ کے اندر پرویزمشرف نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھال لی۔ سیاسی نظام جمہوری قدروں اور سول بالادستی کو پھر سے بحال کرنے کا موقع  2008 کے انتخابات کے بعد آیا تاہم آصف علی زرداری نے سیاسی محاذ پر گیلانی اور راجہ صاحب کا انتخاب کیا۔ کرپشن کے محاذ پر مسٹر ٹین پرسنٹ سے ترقی کر کے فرنٹ مین اور بے نامی  کے نظام کی بنیاد ڈالی اور تمام ڈوریں صدارتی محل سے ہلانی شروع کر دیں۔ اس وقت کے سپہ سالار نے بھی سامنے آئے بغیر نہ صرف وہ پہلا سپہ سالار ہونے کا اعزاز حاصل کیا جس پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگے۔ کیانی صاحب نے پورے 6 سال سپہ سالار کا عہدہ رکھا اور اگر میاں صاحب دھوکا نہ دیتے تو وہ مدت ملازمت میں توسیع کے لیے امید سے تھے، ان کے دور اقتدار کے آخری ماہ میں فوج میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اس غلط فہمی کا ثبوت ہیں۔

آج کے پاکستان میں سپہ سالار کی اگست 2019 میں تین سال توسیع نے یہ تاثر دیا تھا کہ یہ پرانا پاکستان ہی ہے۔ غریب عوام اور دانشور طبقے نے بھی اسے نظریہ ضرورت سمجھ کر  قبول کرلیا تھا۔ تاہم اب صورت حال بدل چکی ہے۔ اصولی اور حقیقی طور پر جوں جوں سیکیورٹی کا دائراہ کار وسیع ہوتا جاتا ہے یعنی یہ داخلی سے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر جاتی ہے تو  قطع نظر احساسیت، اس میں شخصی ضروریات میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے۔ کسی بھی جمہوریت میں علاقائی یا بین الاقوامی سیکیورٹی کی پیچیدہ صورتحال میں ایک ادارے کے کردار میں وسعت آ سکتی ہے مگر اسے شخصی ضرورت قرار دینا اس ادارے کی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔

دہشت گردی کے واقعات میں کمی، فاٹا میں انتخابات، افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کی نوعیت، ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنے میں ادارے کا کردار اور اس سے جڑے سیاسی معاملات، مسئلہ کشمیر کی نوعیت اور سب سے بڑھ کر جنرل باجوہ کی شخصیت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ پیدا شدہ حالات کی وجہ سے توسیع کو قبول نہ کریں اور تاریخ میں سرخرو ہو جائیں۔

 

اعلی عدلیہ کو سمجھنا ہو گا کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے اقدامات کیے جائیں جہاں اگر ہو بھی تو  ملکی تاریخ میں سپہ سالار کی یہ آخری توسیع ہو۔ کیا کوئی ایسا نظام بنایا جا سکتا ہے جہاں حالات پر قابو پانا شخصیت سے نکل کر ادارے کی حدود میں آ جائے۔  پاکستانی تاریخ کب تک حالات اور نظریہ ضرورت کے تابع رہے گی قوم عدالت اور سپہ سالار سے اس کا جواب نہیں مانگ رہی مگر غریب عوام یہ توقع اور امید رکھتی ہے کہ اگلے تین سال میں نہ صرف عوام کی معاشی حالت بہتر ہوگی بلکہ سماجی ترقی بھی دیکھنے کو ملے گی اور بتدریج ملک میں سول بالادستی قائم ہو جائے گی۔

حکومت اور وزیراعظم کے پاس تین سالہ توسیع کا آئینی اور قانونی اختیار موجود ہے مگر اس کا جواز شاید وزارت دفاع نہ دے سکے اور نہ ہی خود سپہ سالار  کے پاس کوئی جواز ہوگا۔ آج فیصلے کا دن ہے۔ عدالت کے لیے بھی اور سپہ سالار کے لیے بھی۔ دیکھیں پہلے کون فیصلہ کرتا ہے؟