سندھ میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہونے کے بعد کراچی تا کشمور پیپلز پارٹی کا بول بالا ہے۔ پہلی مرتبہ کراچی کی میئر شپ بھٹو کی جماعت کو ملی ہے۔ دیہی حلقوں کے برعکس کراچی سے محض بھٹو کے نام پر ووٹ ملنا ذرا مشکل ہے۔ لہٰذا شہر میں ووٹ بنک بڑھانے، شہریوں کی رائے بدلنے اور پارٹی کی ساکھ بحال کرنے کے لیے جیالے میئر کو کارکردگی دکھانا ہوگی۔
امید ہے میئر کراچی شہر میں کام کرنے کے لیے روایتی سیاست دانوں کی طرح انتخابی سال کے آخری 6 ماہ کا انتظار نہیں کریں گے۔ بلکہ پہلے دن سے ہی دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے شہر کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
پاکستان کا معاشی مرکز اور سندھ کا دارالحکومت ہونے کی وجہ سے کراچی کے مسائل کی نشاندہی کرنا قومی میڈیا کی مجبوری ہے۔ لیکن کشمور جیسے پسماندہ ضلع کی کوئی کیونکر بات کرے گا؟ کیونکہ وہاں صنعتیں ہیں اور نا ہی وہ صوبائی دارالحکومت ہے۔
لہٰذا ہم آج کشمور اور کشمور کی طرح بد امنی کی آگ میں جلنے والے شمالی سندھ کے چند دیگر اضلاع کی بات کریں گے جہاں پیپلز پارٹی نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سمیٹی ہے۔
گذشتہ ماہ سندھ اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن صاحب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 'صوبے میں امن و امان کی صورت حال مثالی ہے'۔
وزیر صاحب کے اس دعوے کو سنتے ہی، ساتھ بیٹھے وزیر کے ماتھے پر پڑی 'شکن' شرم کے مارے ساتھی وزیر کے منہ سے نکلے بے ساختہ قہقہے میں چھپ گئی کہ یہ جناب جوش خطابت میں کچھ زیادہ ہی بول گئے ہیں۔
وزیر موصوف کے دعوے کی توثیق آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے عید کے موقع پر کشمور آمد کے وقت یہ کہتے ہوئے کی کہ 'سندھ میں امن و امان کی صورت حال پہلے سے قدرے بہتر ہے۔ پہلے شہری گاڑیوں سمیت اغوا ہوا کرتے تھے، لیکن اب گاڑیوں کے بغیر ہو رہے ہیں'۔
شہریوں کا گاڑیوں کے بغیر اغوا ہونا آئی جی صاحب کے نزدیک امن کے بہتر ہونے کی علامت ہے۔
سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ شاید کشمور، شکار پور، جیکب آباد، گھوٹکی وغیرہ کو سندھ کا نہیں بلکہ پنجاب اور بلوچستان کا حصہ سمجھتے ہیں، وگرنہ اتنا بڑا دعویٰ بھلا کیسے کرتے؟
کشمور کے عوام رہزنوں اور رہزن منتخب نمائندوں کے رحم و کرم پر ہیں اور پولیس کا پولیس کو نہیں پتہ تو ہمیں کیسے معلوم ہو کہ وہ کس کے رحم و کرم پر ہیں؟
کبھی ڈکیتوں کو قبیلے کے نام پر بچایا جاتا ہے تو کبھی راج بھاگ کا بندہ کہہ کر انہیں آزاد کرایا جاتا ہے۔ بچپن میں سنا تھا کہ چور اچکے، پولیس کو دیکھتے ہی دم دبا کر بھاگ جاتے تھے۔ خدا جانے بتانے والے غلط تھے یا ہم سے سمجھنے میں کوئی بھول چوک ہوئی؟
سچ یہ ہے کہ سندھ کے سرحدی اضلاع بالخصوص کشمور، شکار پور اور گھوٹکی میں پولیس کے جوان اگر غلطی سے ڈکیتوں کو دیکھ لیں تو چھپنے اور اپنی جان بچانے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔
ڈکیت پہلے صرف عام شہریوں، مسافروں اور ان دیکھی محبوباؤں سے ملاقات کی آس میں آئے عشاق حضرات کو اپنے ہمراہ 'سندھو دریا کے کنارے مچھلی پلہ کھلانے لے جاتے تھے' مگر اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ بچے بوڑھے، حتی کہ پولیس کے جوانوں کو بھی ڈکیت سندھو کنارے مچھلی پلہ کھلانے اور 'کراچی سے کشمور تک کے سارے نظارے دکھانے لے جاتے ہیں'۔
ایک سندھی نغمہ ہے؛ 'جنت الفردوس آهن ٻئي ڪنڌيون مهراڻ جون'۔ فی الوقت کچے کے ڈکیتوں کے لئے سندھو کے دونوں کنارے جنت الفردوس تو ہو سکتے ہیں لیکن عام شہریوں کے لئے کسی جہنم سے کم نہیں۔
اس وقت بھی ضلع میں 20 سے زائد شہری ڈکیتوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں جن میں 8 کم عمر بچے اور ایک ایف سی اہلکار بھی شامل ہے۔ یہاں اغوا انڈسٹری ہے جو پھل پھول رہی ہے۔ دو بازیاب، چار اغوا جیسی خبریں سندھی میڈیا میں روزانہ کی بنیاد پر سننے کو ملتی ہیں۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ بڑھتی اور تیزی سے ترقی کرتی اس 'صنعت' کا قومی میڈیا میں خال خال ہی ذکر کیا جاتا ہے۔
کوئی اغوا ہو جائے، ڈکیتوں کے ہاتھوں ابدی نیند سلا دیا جائے، منتخب نمائندوں سے اتنا نہیں ہو پاتا کہ وہ دو قدم چل کر متاثرین کے گھر چلے جائیں، ان سے یکجہتی و تعزیت کا اظہار کریں۔ مغویوں کے لواحقین کے سوال کرتے چہرے اپنے منتخب نمائندوں سے جون ایلیا کے الفاظ میں بار بار یہ سوال پوچھتے ہیں؛
؎ بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟
پولیس افسران کہتے ہیں کہ پولیس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ڈکیتوں کا مقابلہ کر سکیں۔ ڈکیتوں کے پاس 'نیٹو' فورسز کا چھوڑا ہوا اسلحہ ہے لہٰذا ہم ڈکیتوں کے خلاف اس وقت تک آپریشن نہیں کریں گے جب تک ہمیں جدید اسلحہ نہیں فراہم کیا جاتا۔
جن اضلاع میں نیٹو اسلحے کی موجودگی کی بات کی جا رہی ہے وہ تمام اضلاع سرحدی ہیں۔ یہاں اسلحہ بنانے کے کارخانے تو ہیں نہیں، لازماً صوبے کے دوسرے شہروں اور ملک کے دوسرے صوبوں سے اسلحہ یہاں سمگل کر کے لایا جاتا ہو گا۔ پولیس کے کردار اور کارکردگی پر ویسے ہی سوالیہ نشان ہے۔ ان پر تنقید کرنا بھی قدرے آسان ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ راستے میں نصف درجن سے زائد قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ان کے ہزاروں اہل کار کیا کر رہے ہیں؟
اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض ایمانداری سے سر انجام دیتے اور تھکن کی وجہ سے سرحدی محافظوں کی بھی آنکھ نہ لگتی تو کیا دوسرے صوبوں اور افغانستان سے سمگلنگ اتنی آسانی سے ممکن ہوتی؟
نا جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں جانتے بوجھتے آگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ راحت اندوری صاحب نے کیا خوب شعر کہا تھا؛
؎ لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
امید ہے کہ اپنے محل نما مکانات جلنے سے قبل صوبے میں لگی بد امنی کی آگ پر سندھ کے حکمران قابو پا لیں گے۔
اسد لاشاری فری لانس جرنلسٹ ہیں اور مختلف ویب سائٹس کے لئے لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ IBA یونیورسٹی سکھر کے میڈیا اینڈ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں وزٹنگ لیکچرر بھی ہیں۔