ایک اردو کا محاورہ ہے کہ گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ پاکستان میں حکومتی اتحاد کو درپیش چیلنجر دیکھ کر یہ محاورہ درست محسوس ہوتا ہے۔ ملک میں اوپر جاتی مہنگائی اور خان صاحب کے حکومت میں آنے سے قبل کے بیشتر وعدے پورے نہ کر سکنے کے باعث ان پر عوام کا عدم اعتماد بڑھ چکا تھا ۔ اگر اس صورتحال میں موجودہ حکومتی اتحاد صبر کا مظاہرہ کرتا اور نیوٹرلز سمیت کسی کی باتوں میں آنے کی بجاۓ یا اپنی مرضی سے کرسی کا لالچ کرنے کی بجائے خان کو 5 سال کی مدت پوری کر کے الیکشن کراتے تو یقیناً ان جماعتوں کا پلڑہ بھاری رہتا مگر ابھی وہ ایسی چیز کھا چکے ہیں جو نہ نگلی جا رہی ہے اور نہ ہی اگلی جا رہی ہے۔ اس عدم اعتماد کے بعد مجھے خان کا ناقد ہونے کے باوجود اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس کی مقبولیت پاکستانی عوام میں کم ہونے کی بجاۓ بڑھی ہے۔
ان چیلنجر میں سے سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے جس کی وجہ ملکی خزانہ میں مطلوبہ رقم کا نہ ہونا ہے جو کہ مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کو رونا اور روس یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکہ،برطانیہ وغیرہ بھی مہنگائی کی زد میں آ چکے ہیں مگر ان ممالک میں مزدور کی اجرت کا تناسب اس طرح ہے کہ اس کو کم ازکم اپنے اور بچوں کی دو وقت کی روٹی کے لالے نہیں پڑے ہوۓ اور وہ اور بچے کھانا پیٹ بھر کر کھاتے اور سوتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف مختلف دوست ممالک مثلاً سعودیہ اور ترکی وغیرہ کا دورہ کر رہے ہیں،اسی طرح وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی آئی ایم ایف کے در پر امریکہ کا چکر لگا کر واپس لوٹ چکے ہیں۔ ان سب ممالک کی تان بھی آئی ایم ایف پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ وہ بھی اسی ذریعہ سے مدد کر سکتے ہیں۔اب آئی ایم ایف کے قرضہ کی شرائط پوری کرنے کے لئے ملک میں تیل اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گویا اگر مہنگائی کا جن خان صاحب کے دور میں باہر نکلنے کو بے تاب تھا تو اب باہر نکل کر عوام کی زندگی اجیرن کر چکا ہے۔
میرے وہ دوست جو تحریک انصاف حکومت جانے کی خوشی میں شادیانے بجا رہے تھے اب ان میں سے اکثریت مہنگائی کا بے قابو جن دیکھ کر پریشان ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہے کہ خان کو ہی پانچ سال پورے کرنے دیے ہوتے اور اگر وہ حالات بہتر نہ کر سکتا تو کم از کم اسے برا بھلا کہتے اور ووٹ کی طاقت سے اس کا راستہ روکتے مگر اب تو ان کو بھی برا بھلا کہنا پڑ رہا ہے جن کے آنے کی ہمیں خوشی تھی۔
ہمارا ایک مجموعی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری کوئی پالیسی نہیں ہم قرض کو قرض سمجھنے کی بجاۓ اسے آمدن اور اپنا حق سمجھنے لگ جاتے ہیں اور پھر اسے چکانے کی بجاۓ اور قرض حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ جب قرض دینے والے ادارے یا ممالک ہمارے اشرافیہ کا رہن سہن دیکھتے ہیں،جب وہ ہمارے بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کا پروٹوکول اور شاہانہ انداز دیکھتے ہیں تو وہ شاید سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہوں گے کہ کہیں انہیں دھوکے میں رکھ کر تو ملک کے لیۓ قرض حاصل نہیں کیا گیا۔
ہماری ہر نئی آنے والی حکومت اپنی نااہلی کا ملبہ پچھلی حکومت پر ڈال کر اپنی ناکامی چھپا کر بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ ہماری اشرافیہ ہر دورمیں مزے کرتی ہے اور بھگتنا نچلے طبقے کو پڑتا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی گزشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حکمران اشرافیہ، کارپوریٹ سیکٹر، سیاستداں اور طاقتور ادارے ہر سال تقریباً اٹھارہ ارب ڈالر کے مساوی ترجیحی مراعات و مستثنیات حاصل کرتے ہیں۔ اس مراعاتی دائرے سے ملک کی اٹھانوے فیصد آبادی باہر ہے۔ چلیں اور کچھ نہ کریں یہ خصوصی مراعات و استسنیات ہی معطل کر دیں۔
غرض یہ شیر کی سواری اس حکومتی اتحاد کو کرنی تو پڑے گی اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ معاشی بحران پر قابو پا کر یہ عوام کے ووٹوں سے پھر برسر اقتدار آئیں گے یا صورت حال اس کے برعکس ہو گی۔ بہرحال جو بھی حالات ہوں اشرافیہ طبقہ موجیں ہی کرتا ہے اور کچومر عوام کا نکلتا ہے۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔