انسانی حقوق کی تحاریک سے لڑنے کی بجائے ان کی بات سنی جاتی ہے

انسانی حقوق کی تحاریک سے لڑنے کی بجائے ان کی بات سنی جاتی ہے
بہت ہی بوجھل دل سے اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جب دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کے دہانے پر ہے، پاکستان جیسی تیسری دنیا کی ریاستیں قومی تحفظ کے نام پر خود ساختہ جنگیں لڑ رہی ہیں۔ اس بات سے کوئی انکاری نہں کہ ریاست پاکستان کو کئی خطرات درپیش ہیں خواہ بیرونی ہوں یا اندرونی لیکن بیرونی خطرات کی تاریخ تو بہت پرانی ہے اور رییاست کے غلط فیصلوں کے باوجود بھی ریاست نے ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کیا ہے جبکہ اندرونی اضطراب کو ہمیشہ غیر مناسب ذرائع سے دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حیران کن طور پر یہ ذرائع کچھ مخصوص حلقوں کی میراث رہے ہیں اور دریں اثنا ریاست کا کردار تماشائی سے زیادہ کچھ نہں رہا۔

پاکستان کی صف اول کی سیاسی جماعتیں وقتاً فوقتاً ان ذرائع سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر متاثر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی ہی مثال لے لیجئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت سے لے کر اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کا قیام اور بالآخر منتخب جمہوری حکومتوں پر شب خون مارنا ان ذرائع کے استمعال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بدقسمتی سے ان عوامل کو بروئے کار لانے میں سب سے زیادہ کردار بھی دوسری سیاسی جماعتوں کا ہی رہا ہے۔



نہ صرف سیاسی تحاریک بلکہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والی عوامی تحاریک کو زدو کوب کرنے کا سلسلہ بھی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ ان تحاریک کو معیوب اور کمزور دکھانے کے لئے ان کے جائز مطالبات پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور کبھی 'غدار' تو کبھی 'بیرونی طاقت' جیسے الفاظ استمعال کر کے عوام کے ذہنوں میں ابہام پیدا کیا جاتا ہے۔ اسی ابہام میں ریاست کئی نا قابلِ فراموش زخم کھا چکی ہے جس کی جیتی جاگتی مثال 16 دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش کا علیحدہ ریاست کی صورت میں معرض وجود میں آنا ہے۔

قومی مفاد اور مفاد عامہ کو الجھا کر دو مختلف تصورات کی شکل دی گئی ہے حتیٰ کہ اجتماعی قومی ترقی کو قومی مفاد سے منسوب کر کے مفاد عامہ پر سوال اٹھانے والوں کو غداری کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ 'اختلاف' اور نظام کے 'ناقدین' پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔

گذشتہ ادوار میں بلوچ عوام کے حقوق پر بات کرنے والی تحاریک ، گلگت بلتستان میں جائز مطالبات کرنے والے سیاسی عناصر حتیٰ کہ پنجاب اور سندھ میں موجود قوم پرست جماعتوں کے تحفظات، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور ریاستی لاتعلقی کا عندیہ دیتے ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں سے پشتونوں کے حقوق کے لئے بات کرنے والی تنظیم پشتوں تحفّظ موومنٹ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ان کے جائز مطالبات کو بھی پس پشت ڈال کر الزام تراشی کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ کسی بھی قسم کے اختلاف کو غداری کے زمرے میں لا کر دھتکارنے کا یہ عمل تشویشناک نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

جھوٹے عدالتی مقدمات، تشدد پر مبنی ریاستی پالیسیاں، میڈیا سینسرشپ، اور نامناسب پراپیگنڈا وہ تمام ذرائع ہیں جنہیں اپنا کر ریاستی ادارے ملکی سالمیت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ قومیت کے نت نئے تصورات اور حب الوطنی کے خود ساختہ معیار کسی بھی ملک کی اخلاقی اقدار کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور بدقسمتی سے وطنِ عزیز ان تمام قباحتوں کے بے دریغ استمعال میں مبتلا ہے۔