مہنگائی نے غریبوں، دیہاڑی دار مزدوروں اور پنشنرز کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے

مہنگائی نے غریبوں، دیہاڑی دار مزدوروں اور پنشنرز کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے
پاکستان کے محکمہ شماریات کے مطابق ملک میں مہنگائی اپنی بلند ترین شرح یعنی 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہ مہنگائی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ اب تو اس کمر توڑ مہنگائی میں روزانہ سے ہٹ کر گھنٹوں کی بنیاد پر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں صاحب استعداد طبقے سے وابستہ لوگوں کے ساتھ ساتھ سفید پوش اور مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی دستیاب وسائل میں گزارا نہیں کر پا رہے۔ مہنگائی کی موجودہ لہر نے غریبوں، دیہاڑی دار مزدوروں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تو کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے۔ دیہاڑی دار اور مزدور طبقے کا جینا اور مرنا دونوں ہی دشوار ہو چکے ہیں۔

آمدن میں مسلسل کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافے نے لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کر دیا ہے۔ پٹرول، بجلی، گیس، ایل پی جی، آٹا، چینی، گھی، سبزیاں، دالیں، دودھ، دہی اور ڈبل روٹی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اب روزمرہ کی ضروریات کی اشیا ان دیہاڑی دار اور مزدور طبقہ کے افراد کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ دن بھر خون پسینہ ایک کر کے محنت اور مزدوری کرنے والے مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ بھوک اور افلاس ان کے گھروں میں ڈیرے ڈال چکے ہیں۔ دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کے حصول میں مشکلات کے سبب یہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو کر مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں جو لوگ اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی نہیں خرید سکتے وہ علاج معالجہ کیسے کروائیں گے۔ ادویات کی ہوش اُڑا دینے والی قیمتوں نے سفید پوش، مڈل کلاس دیہاڑی دار مزدور طبقے کو علاج معالجہ کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم کر دیا ہے۔

مہنگائی کے اس بے قابو جن نے جہاں ہر طبقے کو پریشان حال کر رکھا ہے، وہیں اُن لاچار، بے کس، مجبور اور پریشان حال ریٹائرڈ ملازمین، بیواؤں اور یتیم بچوں کی زندگیوں کو بھی اجیرن بنا دیا ہے جو 15 سے 18 ہزار روپے ماہانہ پنشن لے رہے ہیں۔ ان کا اس پنشن کے علاوہ اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ حکومت ایک جانب گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں رکھ پا رہی تو دوسری جانب یہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کرنے میں بھی بری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔

حکومت کا اولین فریضہ معمر شہریوں، بے سہارا افراد اور بیواؤں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے لیکن حکومت ایک اسلامی ریاست ہونے کی دعویدار تو ہے لیکن پنشنرز کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ بڑھاپے میں بہتر علاج اور بروقت ادویات کی فراہمی ان کی زندگی کا اہم جزو ہے۔ مہنگائی کے اس طوفان میں جہاں پنشنرز بمشکل دو وقت کی روٹی پوری کر رہے ہیں تو دوسری جانب یہ بہتر علاج اور ادویات کی سہولت نا ملنے کے سبب سسک سسک کر اپنی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔

ریاست عوام کے لیے ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ بے لوث محبت، شفقت، اپنائیت اور قربانی کا دوسرا نام ماں ہے۔ یہ ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہئیے کہ یہ اپنے عوام اور خصوصی طور پر ان افراد کا خصوصی طور پر خیال رکھے جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی ماہ و سال اس ریاست کی خدمت گزاری اور وقار کی بلندی کے لیے قربان کیے ہیں۔ اور اس ملک و قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ ریاست، صاحب اختیار، عصائے شاہی رکھنے والے اور ایوان عدالت میں فائز عدل و انصاف مہیا کرنے والوں کی جانب سے ان ضعیف العمر پنشنرز، بیواؤں اور یتیم بچوں کے ان مالی، معاشی اور معاشرتی گھمبیر مسائل سے مسلسل چشم پوشی اور غفلت برتنا ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے۔

پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی نظریاتی ریاست ہے۔ ایک اسلامی فلاحی ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہوا کرتی ہے کہ وہ لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ بنیادی سہولیات میں چار طرح کی سہولیات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں؛

1۔ خوراک

2۔ رہائش

3۔ علاج معالجہ

4۔ تعلیم

مگر لمحہ فکریہ ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے برتی جانے والی غفلت، لاپرواہی اور عدم توجہی کے سبب ضعیف العمر پنشنرز، یا ریٹائرڈ ملازمین کی بیوائیں اور یتیم بچے ان تمام سہولیات سے محروم ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں سے اپیل ہے کہ وہ ایک اسلامی مملکت کے حکمران ہونے کے ناطے امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے قانون کو پامال ہونے سے بچاتے ہوئے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابر کریں۔ بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچنے والے ان ضعیف العمر افراد کی اکثریت شوگر، بلڈ پریشر، امراض قلب، ذہنی امراض اور سینے کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ کئی مہلک بیماریوں کا شکار ہو چکی ہے۔ انہیں بہتر صحت کی سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے میڈیکل الاؤنس کی رننگ پنشن کے حساب سے ادائیگی کی جائے اور ادویات کی بڑھ جانے والے دو سو فیصد قیمتوں کی مطابقت سے ان کے میڈیکل الاؤنس میں اضافہ کیا جائے۔

ریٹائرڈ ہونے والے اور دوران سروس وفات پا جانے والے ملازمین کی بیوائیں اور یتیم بچے لائف انشورنس اور باقی حقوق کے نہ ملنے کے سبب بے سروسامانی اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے بچے تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔ خدارا ان بیواؤں اور یتیم بچوں کے حال پر ترس کھا کر ان کو ان کے حقوق فوری طور پر لوٹائے جائیں تا کہ یہ بھی معاشرے میں عزت اور وقار کی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔

نئے سال کے بجٹ کا سیزن شروع ہو چکا ہے اور بجٹ کی تیاری کی خبریں آنا شروع ہو چکی ہیں تو ایسے میں میری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ان 30 سے 40 سال تک ملک و قوم کی خدمت سر انجام دینے والے اور دوران سروس اپنی تنخواؤں سے ہر ماہ ایک خاص رقم کی کٹوتی کے ساتھ ساتھ باقاعدگی کے ساتھ اپنی آمدنی کے ٹیکس کی ادائیگی کرنے والے ان پنشن کے حق دار قرار دیے جانے والوں کو ماضی کے حکمرانوں کی طرح فراموش اور مایوس نہ کیا جائے۔ ماضی میں حکمرانوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ پہلے پہل پنشنرز کو 30 سے 35 فیصد اضافے کی خبریں سنا سنا کر اور آئے دن ان میں ردوبدل کر کے بجٹ والے دن ان کو بڑے احسان کے ساتھ 5 یا 10 فیصد اضافے کی نوید سنائی جاتی رہی ہے۔

ملک میں گرتی ہوئی معیشت، مہنگائی، بے روز گاری، بدامنی اور حکمرانوں کی جانب سے برتی جانے والی بے حسی کے سبب یہ ریٹائرڈ ملازمین اپنی زندگیوں سے عاجز آ چکے ہیں۔ اب ان میں زور و زبر سے تھوپے گئے بجلی، گیس اور پانی کے بلوں کی ادائیگیوں کی سکت اور ہمت نہیں رہی۔ اب ان کے کندھے مزید بار اُٹھانے سے جواب دے چکے ہیں۔ ان کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے۔ اس سے پہلے کہ منہ زور مہنگائی، بے روز گاری اور بڑھتی ہوئی بدامنی کا یہ عفریت سب کچھ نگل لے، روٹی کپڑا اور مکان، نئے پاکستان بنانے والے اور پرانا پاکستان یا ایک ہی پاکستان کے نعرے لگانے والوں کو سنجیدگی کے ساتھ غربت، بے روز گاری اور بڑھتی ہوئی بدامنی کے خلاف عملی اقدامات اُٹھانے ہوں گے کیونکہ یہ ملک و قوم اب حکمرانوں کی آپس کی چپقلش، اداروں کے درمیان طاقت کے حصول کی رشہ کشی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بھوک، افلاس اور بے روز گاری کے سبب پیدا ہونے والی افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔