پاکستان میں سرکاری ملازم ہونا کسی نعمت سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کا ملنا ہے۔ پنشن ریٹائرڈ ہونے پر حکومتی ادارے کی جانب سے ملازمین کو ماہانہ تنخواہ کی صورت میں دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے سرکاری نوکری کی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور نوجوانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں سرکاری نوکری مل جائے تا کہ بڑھاپے میں انہیں محتاجی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پنشن کے ساتھ محتاجی تو ختم ہو جاتی ہے مگر اس کو حاصل کرنے کا طریقہ کار ماضی میں اتنا پیچیدہ تھا کہ اس کو کسی سزا سے کم نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اکیسویں صدی میں ہونے کے باوجود آج بھی ملک بھر میں پنشن کے طریقہ کار کو یکساں اور جدید بنانے میں حکومتی ادارے ناکام ہیں۔ حکومت کی جانب سے ہر ماہ پنشن کی وصولی کو ٹیکنالوجی کی مدد سے آسان بنانے کا طریقہ کار اگرچہ متعارف کروایا جا چکا ہے مگر آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ابھی بھی بہت کم پنشنرز اس سہولت سے فائدہ اٹھا پا رہے ہیں۔
نینشل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے پنشن کی تقسیم کا جدید نظام متعارف کروایا ہے جس میں نادرا کی 'ای سہولت فرنچائزز' معاونت فراہم کر رہی ہیں۔ نادرا ریجنل ہیڈ کواٹرلاہور کے ڈائریکٹر جنرل میجر (ر) سید ثقلین عباس بخاری نے بتایا کہ پنشن مینجمنٹ کا انتظام بینک اور نادرا ای سہولت کے درمیان کیا جا رہا ہے۔ پنشن کے حوالے سے جدید پروگرام ڈائریکٹ کریڈٹ اسکیم ہے۔ اس سسٹم کے تحت پنشنرز اپنے فنڈز براہ راست بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا سکتے ہیں۔ اس نظام کے تحت بائیو میٹرک تصدیق شدہ پنشنرز کو اسمارٹ کارڈ بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ نادار کی ویب سائٹ پر درج اعدادوشمار کے مطابق 1.72 ملین پنشنرز پنشن فنڈز سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب کے جاری کردہ ریکارڈ کے مطابق صوبہ پنجاب سے ڈائریکٹ کریڈٹ اسکیم کے تحت 4 لاکھ 41 ہزار 132 افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ براہ راست کریڈٹ سسٹم کے تحت پنشن کے حصول کے لیے نیشنل سیونگز سینٹر سمیت کسی بھی شیڈول بینک میں بینک اکاؤنٹ کھلوایا جا سکتا ہے۔ یہ بینک آپشن ریٹائرڈ ہونے والے سرکاری ملازم کے ڈی ڈی او کی جانب سے تصدیق شدہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ شناختی کارڈ کی ایک کاپی، اصل پنشن پیپرز یا پی پی او اور اے جی آفس یا ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس میں انڈیمنٹی بانڈ جمع کروانا پڑتا ہے۔
اس طریقہ کار کے تحت پنشن حاصل کرنے والے بزرگ شہریوں کو ہر سال مارچ اور ستمبر کے بعد ذاتی طور پر یا نمائندے کے ذریعے سے پنشن تقسیم کرنے والے بینک برانچ کو 'لائف سرٹیفکیٹ' پیش کرنا ہوگا۔ حکومت کی جانب سے ایسا سسٹم لانے کی ایک وجہ پنشن کے نظام میں شفافیت کو برقراررکھنا ہے۔ نادرا کی بائیو میٹرک پالیسی اگرچہ پنشنرز کے لیے بہت سی سہولتیں لے کر آئی ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانا ابھی بھی بہت مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پنشن کے طریقہ کار کو شفاف بنانے کے لیے ایک ہدایت جاری کی ہے جس کے تحت پنشنرز کی بائیو میٹرک تصدیق سال میں دو بار لازم قرار دی گئی۔ پنشنرز کو ہر سال مارچ اور ستمبر میں اپنا بینک پنشن اکاؤنٹ سنبھالنے والی کسی بھی برانچ سے بائیو میٹرک تصدیق کرانے کی شرط لگا دی گئی ہے۔
اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب کی ویب سائٹ سے موصول ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق اس جدید سسٹم سے سب سے زیادہ ضلع لاہور کے 66 ہزار 849 پنشنرز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ضلع فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے 28 ہزار 140 افراد ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر ضلع راولپنڈی سے 25 ہزار 868 افراد اپنی پنشن اس نظام کے تحت موصول کر رہے ہیں۔
ان تین اضلاع کے بعد سرگودھا، ملتان، بہاولپور، رحیم یار خان، بہاولنگر، سیالکوٹ، گجرات، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان اور ساہیوال ایسے اضلاع ہیں جہاں اس جدید سسٹم سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد 10 ہزار سے 20 ہزار کے درمیان ہے۔
جن اضلاع میں پنشنرز کی تعداد سب سے کم ہے ان میں چنیوٹ، حافظ آباد، لودھراں، پاکپتن اور ننکانہ صاحب شامل ہیں۔ یہاں کے حکومتی ادارے اور پرائیویٹ بینک لوگوں میں شعور پیدا کریں کہ وہ اس ڈائریکٹ کریڈٹ اسکیم کے ذریعے پنشن کے حصول کو آسان بنائیں۔
قانونی طور پر سرکاری ملازم کی وفات کے بعد پنشن اس کی بیوہ کو ملتی ہے اور بیوہ کی وفات کی صورت میں پنشن کس کو منتقل ہو گئی یہ ایک بڑا پیچیدہ معاملہ تھا۔ 2021 میں پنجاب حکومت نے ایک قانون سازی کی جس کے مطابق وفات پا جانے والے سرکاری ملازم کی اولاد میں سب سے بڑا بیٹا یا بیٹی پنشن حاصل کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ ایک سے زائد شادیاں کرنے والے ملازمین کی عمر میں بڑی بیوی کو ہی پنشن ملے گی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جہاں پنجاب حکومت نے پنشن کے متعلق بہت سے معاملات کو حل کر دیا ہے وہاں پنشن کی منتقلی کے عمل پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے شہری احمد فراز (فرضی نام ) نے بتایا کہ والد کی وفات کے بعد ان کی پنشن والدہ کو ٹرانسفر ہوتے ہوتے قریباً 10 ماہ لگ گئے تھے۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے بعد دوسرا ضروری ڈاکیومنٹ وراثتی سر ٹیفکیٹ تھا جس میں والد صاحب کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیل اور جائیداد کی تفصیل شامل تھی۔ اس کے لیے والدہ تمام بہن بھائیوں کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئیں جس کے بعد عدالت نے وارثتی سرٹیفکیٹ دیا اور اس تمام کام میں 5 ماہ لگ گئے۔ اس کے بعد تیسرا مرحلہ اس میں جہاں والد صاحب کام کرتے تھے وہاں سے ایک فارم لیا جس میں ایک چیک لسٹ تھی جس میں یونین کونسل کا ریکارڈ، سیکرٹریٹ سے پنشن کا ڈیٹا لینا، جس میں پیسوں اور الاؤنس کے بریک ڈاؤن کی تفصیل ہوتی ہے وہ حاصل کیا۔ اس کو کرتے کرتے ایک ماہ لگ گیا۔ اگلہ مرحلہ جو زیادہ مشکل تھا جس میں والد صاحب کے ادارے کے ہیڈ آفس میں یہ سب کاغذات جمع کروانے تھے۔ تصدیق شدہ کاغذات کو اے جی آفس لاہور میں جمع کروایا۔ ان تمام معاملات میں بھی 2 ماہ لگ گئے۔ والدہ کے نام پنشن ٹرانسفر کے اس عمل نے پوری فیملی کوشدید ذہنی دباؤ میں رکھا۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ نادرا کے فیملی ٹری فارم سے ہی پنشن کی منتقلی کا عمل ایک ماہ کے اندر اندر مکمل ہو جانا چاہئیے۔
بیوہ کو پنشن منتقلی کے حوالے سے دوسرا بڑا مسئلہ دو پنشنز کے ہوتے ہوئے صرف ایک پنشن ہی وصول کر سکنا بھی تھا۔ ضلع ساہیوال سے تعلق رکھنے والی شگفتہ جمال (فرضی نام) کو دو پینشنز کی حق دار ہونے کے باوجود ایک پنشن ملتی تھی۔ شگفتہ جمال کو پہلے اپنے والد کی پنشن ملتی تھی جبکہ ان کے شوہر بھی سرکاری ملازم تھے، ان کی وفات کے بعد یہ اپنی شوہر کی پنشن کی حقدار بھی تھیں مگر محکمہ خزانہ کا جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن انہیں ایک پنشن سے محروم کر گیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ شگفتہ جمال کو صرف ایک پنشن مل سکتی ہے۔ جس پر انہوں نے مقدمہ درج کروایا۔ جنوری 2022 میں عدالتی فیصلہ ان کے حق میں آیا کہ 'محکمہ خزانہ کا جاری کردہ نوٹیفکیشن انصاف کے تقاضوں کے بالکل منافی ہے اور حکم دیا کہ اسے معطل کیا جائے۔ خاوند اور والد دونوں کی پنشن درخواست گزار کو ادا کی جائے'۔
صوبائی وزیر خزانہ محمد محسن لغاری نے ٹیلی فونک انٹرویو میں پنشن کے حصول میں درپیش مسائل کے بارے میں بتایا کہ پنجاب حکومت کی پوری کوشش ہے کہ پنشن کے عمل کو عوام کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مزید آسان بنایا جائے۔ حکومت نے پنشن کی ادائیگی میں آسانی کر دی ہے اور پنشنرز کے اکاؤنٹ میں براہ راست ادائیگی ہو رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے زیادہ کیا آسانی ہو سکتی ہے کہ پنشن لینے کے لیے کسی بھی ڈاک خانے اور بینک کے باہر لمبی قطار میں نہیں لگنا پڑتا بلکہ پنشن صارفین کسی بھی بینک اکاؤنٹ میں منتقل کروا سکتے ہیں اور وہ وہاں سے یا تو اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے یا چیک کے ذریعے آسانی سے نکلوا سکتے ہیں۔