عدالتی نظام کے لیے جدید قانون سازی کی جائے

عدالتی نظام کے لیے جدید قانون سازی کی جائے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے موجودہ عدالتی نظام کے تحت مقدمات کی سماعت کے لیے بنائے گئے صدیوں پرانے ضابطوں میں کئی ایسی کمزوریاں ہیں جو دور جدید کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتیں۔ انہی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوسائٹی اور ریاست دشمن عناصر ریاستی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں اور اس وقت ہم حالت جنگ میں ہیں۔

چند روز پہلے اخبارات میں ایک خبر چھپی تھی کہ موجودہ حکومت نے مختلف تنازعات کو متبادل انداز سے نمٹانے کا نظام (Alternative Dispute Resolution) کے قانون کا غالبا اپنی نوعیت کا تیسرا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ تاکہ مختلف نوعیت کے تنازعات کو ایک سے ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر نمٹایا جاسکے اور خبر کے مطابق اس مسودے کو شائد کابینہ کے اگلے اجلاس میں منظوری کے لیے بھی زیر بحث لایا جائے گا۔

مجوزہ قانون کے مسودے میں صرف دیوانی اور فوجداری نوعیت کے تنازعات ہی نہیں بلکہ تجارتی، خاندانی، کاروباری، انشورنس اور ریونیو کے تنازعات کو بھی اسی متبادل نظام کی رو سے پنچائتی کونسل یا غیرجانبدار پینل کے پاس بجھوایا جائیگا اور اس پینل یا کونسل کی خاص بات یہ ہو گی کہ یہ پینل/کونسل غیر جانبدار افراد پر مشتمل ہوگی۔ ان میں شامل تمام افراد نیک اور اچھی ساکھ کے حامل ہوں گے۔ غیرجانبدار پینل یا پنچائتی کونسل میں متوقع طور پر ریٹائرڈ جج، وکلا، علما اور ٹیکنوکریٹ قسم کے لوگ شامل ہوں گے۔ اسی طرح اس مجوزہ قانونی مسودے میں پنچائتی کونسل یا غیرجانبدار افراد پر مشتمل پینل کے کام کرنے کا طریقہ کار بھی بیان کیا گیا ہے۔

اس متبادل نظام کے دائرہ سماعت میں آنے والے ہر مقدمے کو ایک خاص مدت میں حل کرنا ہو گا۔ یہ مجوزہ قانون چونکہ ابھی ایک مسودے کی شکل میں ہے اور ابھی تک یہ مسودہ کابینہ کے اجلاس کی زینت بھی نہیں بنا تو اس کے نتائج پر بات کرنا شائد قبل از وقت ہو۔

دنیا کی تمام ترقی یافتہ ریاستوں نے جدید اور پائیدار قانون سازی کر کے اپنے عدالتی نظام کو جدید دور کے تقاضوں کا حامل بنایا۔ دنیا کے اکثر ممالک نے اب مقدمات کو نمٹانے کے لیے متبادل نظام بھی وضع کر دیے ہیں، جن میں عدالت سے باہر ہونے والی مصالحتی اور ثالثی فیصلوں کو عدالتی فیصلے کی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ تمام حل طلب مسائل چاہے وہ دو افراد کے درمیان ہو یا دو اداروں کے درمیان ہو، حتیٰ کہ اب تو عالمی سطح پر ہونے والے کنونشن کے تناظر میں اکثر عالمی کمپنیاں، عالمی ادارے اور ریاستیں روایتی مقدمے بازی کے بجائے متبادل نظام کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر متبادل نظام (Alternative Dispute Resolution)  کی بات کی جائے تو یہ نظام امر یکہ، آسٹریلیا، انڈیا کے علاوہ کئی اور ممالک میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔

اگر ہم اپنے نظام عدل و انصاف کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالیں تو ہمارے پاس عدالتوں کے علاوہ جرگے/پنچائت کی صورت جتنا پرانا اور مضبوط متبادل نظام موجود تھا شائد ہی کسی کے پاس ہو۔ اگر ہمارے قانون ساز ادارے جر گے/پنچائت پر مناسب قانون سازی کر کے اسے ایک متبادل نظام کے طور پر پیش کرتے تو آج عدل و انصاف کا نظام اتنا پیچیدہ اور مشکل نہ ہوتا جتنا ایک غریب آدمی کے لیے مشکل نظام بن چکا ہے۔ لیکن، جرگے اور پنچائت پر مناسب قانون سازی نہ ہونے کی وہ سے آج یہ نظام ان لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے جنہوں نے انتہائی غلط، غیر انسانی، غیر اخلاقی و غیر قانونی فیصلے کر کے اس نظام کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کو پوری دنیا میں بدنام کروایا۔ حالانکہ ہمارے پڑوس میں بھارت نے اپنے تاریخی پنچائتی نظام سے فائدہ اٹھا کر اس پر مختصر مگر جامع قانون سازی کر کے اسے "لوکل عدالت" کا نام دے دیا۔



پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں ترقی یافتہ ممالک نے اپنے کاروباری و تجارتی اتحادی ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ بھی ایسی ہی قانون سازی کریں جو تنازعات کو جلد نمٹائے اور ان باہمی تنازعات کو روایتی عدالتوں میں نمٹانے کے بجائے کچھ ایسے مصالحتی اور ثالثی فورم بنائے جائیں جہاں فیصلہ سازی جلد اور پائیدار ہو اسی تناظر میں پاکستان نے بھی بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی کشش اور ان کے تحفظ کے لیے Recognition and Enforcement (Arbitration Agreements and Foreign Arbitral Awards) Ordinence 2006 جاری کیا۔ جس کا مقصد 1958 میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے اسی طرح کے کنونشن کے ممبر ہونے کے ناطے باقی ممبر ملکوں کے ساتھ معاہدوں کا تحفظ تھا۔

اس کے علاوہ پاکستان نے بین الاقوامی سرمایہ کاری کے تقاضے کو مدنظر رکھتے ہوئے 11.Arbitration (International Investment Disputes) Act, 201 کا قانون پاس کیا۔

اگرچہ ہمارے پاس پہلے ہی Arbitration Act 1940 موجود ہے، جو شائد جدید دنیا کے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا) اسی طرح ضابطہ دیوانی 1908 کی دفعہ 89A  کا بھی اضافہ کیا گیا، جس میں واضح طور عدالت کے باہر ثالثی، مصالحتی کی ہر ایسی کوشش کو سراہا گیا ہے جو تنازعہ کے حل ہونے میں مدد دے سکے۔

اس کے علاوہ پچھلی دہائی میں چھوٹے موٹے معاملات کے لیے Small Claims and Minor Offences Ordinance 2002  عدالتیں بھی بنائی گئی جو کہ ایک اچھی پیشرفت ہے اور یقینا یہ کو ششیں مزید بارآور ثابت ہوں گی۔ اب جدید دور میں تنازعات کے حل کے لیے مقدمات کا متبادل نظام وقت کہ اہم ضرورت ہے لیکن اس مجوزہ قانون کو باقاعدہ قانون بنانے سے پہلے بار و بنچ کو بھی اعتماد میں لیا جائے اور اس پر مکمل ہوم ورک کیا جائے تاکہ کوئی قانونی سقم باقی نہ رہے۔