سینیٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے انفرادی حیثیت میں ازخود نوٹس لینے کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 منظور کر لیا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوان سے بل کی شق وار منظوری لی۔ بل کی حمایت میں 60 جبکہ مخالفت میں 19 ووٹ پڑے۔ پی ٹی آئی نے بل کی مخالفت کردی۔
بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن اراکین نے شدید احتجاج کیا جبکہ پی ٹی آئی کے ارکان چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے گرد جمع ہوئے۔ تحریک انصاف کے سینیٹر نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے۔پی ٹی آئی سینیٹرز نے ’’عدلیہ پر حملہ نامنظور‘‘ کے نعرے لگائے۔ سینیٹرز نے چیئرمین ڈائس کا گھیراؤ کیا جبکہ سینیٹر فیصل جاوید اور سینیٹر بہرہ مند تنگی کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔
گزشتہ روز عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 متفقہ طور پر قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا تھا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کاکہنا تھا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قائمہ کمیٹی کو سونپا گیا تھا۔ کمیٹی نے بل میں کچھ ترامیم تجویز کی ہیں۔
نیا دور کو بل کی کاپی موصول ہو گئی جس کے مطابق بینچ کی تشکیل کا فیصلہ 3 ججز پر مشتمل کمیٹی کرے گی جو چیف جسٹس، 2 سینئر ترین ججز پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی کی اکثریت کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا۔
منظور شدہ بل میں بتایا گیا ہے کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت کیس کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔ معاملہ قابل سماعت ہونے پر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔معاملے کی سماعت کے لئے بنچ کم سے کم 3 رکنی ہوگا جب کہ تشکیل کردہ بینچ میں کمیٹی سے بھی ججز کو شامل کیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ کے تین ججز کو حاصل ہو گا۔ از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 روز میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔ 14 روز میں اپیل کی سماعت کے لئے لاجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔ اپیل کرنے والے فریق کو مرضی کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا اور آئین کی تشریح کے لئے 5 سے کم ججز پر مشتمل بینچ تشکیل نہیں ہوگا۔
اس سے قبل پیر کو سپریم کورٹ کے دو ججوں نے 27 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا جس میں دونوں جج صاحبان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کو مسترد کر دیا۔
پنجاب اور کے پی الیکشن کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے لیے جانے والے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا تفصیلی فیصلہ سامنے آ گیا ہے۔ دونوں ججوں نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی درخواستیں مسترد کر دیں اور لاہور اور پشاور ہائی کورٹس کو اس حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ سنانے کی ہدایت کی گئی۔
27 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ ازخود نوٹس 4 ججز نے مسترد کیا، آرڈر آف کورٹ 3-4 کا فیصلہ ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے ’ون مین پاور شو‘ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ وقت آ گیا ہے کہ چیف جسٹس آفس کا ’ون مین شو‘ کا لطف اٹھانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ ازخود نوٹس کے اختیار کے بارے میں فُل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہو گی۔