سپریم کورٹ کے ریمارکس کہ بدعنوانی کی حکمرانی: کیا 2023 میں پیپلز پارٹی سندھ حکومت نہیں بنا پائے گی؟

سپریم کورٹ کے ریمارکس کہ بدعنوانی کی حکمرانی: کیا 2023 میں پیپلز پارٹی سندھ حکومت نہیں بنا پائے گی؟
چیف جسٹس آف پاکستان گلراز احمد صاحب نے کراچی نا جائز تجاوزات کیس کے دروان ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں بدعنوانیوں کی حکومت ہے۔ سارے ملک میں ترقی ہورہی ہے مگر سندھ میں نہیں۔ صوبہ کو لندن دبئی اور کنیڈا سے چلایا جا رہا ہے ۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے منصف اعلی نے ایک چارج شیٹ دی ہے جو سندھ حکومت کے خلاف کاٹ دی گئی ہے۔ اب تک سندھ میں سب سے زیادہ پاکستان پیپلز پارٹی سات دفعہ حکومت بنا چکی ہے مگر سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسکی بنیادی وجہ جو نظر آتی ہے وہ سندھی بولنے والوں اور اردو بولنے والوں کا تضاد ہے جو اس صوبے میں لسانی بنیادوں پر سیاست کو فروغ دینا ہے ،پیلز پارٹی آج تک کبھی بھی کراچی شہر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی زیادہ نشتوں پر کامیاب نہیں ہو سکی۔ کسی دور میں جماعت اسلامی پھر متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف کو کراچی کے عوام نے مینڈیٹ دیا ،سندھ میں حکومت بنانے کے بعد کراچی میں ہی پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ اور وزراء بیٹھتے ہیں۔ ان میں سوائے سعید غنی کے سب کے سب اندرونِ سندھ سے جیت کرآتے ہیں اور کراچی کے لیئے کچھ نہیں کرتے ،شہر قائد کے انفراسٹرکچر کو تباہ برباد کر دیا گیا۔ اب وفاقی وزیر اسد عمر کی قیادت میں کراچی میں ترقیاتی منصوبوں پر کام چل رہا ہے کراچی سے منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے ایم این ایز کو ترقیاتی منصوبوں کے فنڈ بھی جاری ہوئے اور کام بھی چل رہا ہے۔ جس میں کراچی کے نالوں کی صفائی کا کام بھی ہے۔ مون سون کی بارشوں سے پہلے توقع ہے کہ کام ہو جائے گا ،کراچی کی سٹرکوں کی تزئین وآرائش اور گرین بیلٹ کی بحالی کا کام بھی چل رہا ہے ۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے جو اس شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک بہترین نظام تھا اسکو تباہ کر دیا گیا۔ ریلوے کی اراضی پر قبضے ہو گئے۔ کسی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ خدا بھلا کرے سپریم کورٹ کا جن کے ازخود نوٹس کے باعث فیز 1 بحال ہو گیا۔ اب فیز 2 اور 3 پر کام چل رہا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کا ڈنڈا نہ ہوتا شاہد کراچی سرکلر ریلوے کبھی بحال نہ ہوتا۔ بہرحال یہ بھی کریڈٹ بھی سپریم کورٹ اور موجودہ حکومت کو ہی جاتا ہے۔ کراچی سے باہر نکل کر اندرونِ سندھ کے حالات بھی سازگار نہیں ہی۔ں تھر آئے روز شیرخوار بچوں کی ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں۔ سندھ کے ہسپتالوں میں کتا کاٹنے کی ویکسین تک دستیاب نہیں، اور پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے۔ ان حالات میں سندھ میں سیاسی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ کیا وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج نافذ کر کے سندھ کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ شاید ایسا نہ ہو کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کو اس سے سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔ اور ناقدین سے تنقید میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پچھلے دنوں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سپریم کورٹ سے رجوع کی بات کی تھی اس سے سندھ کے مسائل حل ہونے کی امید ہو سکتی ہے۔ کیا 2023 کے الیکشن میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بننے کے امکانات ہیں۔ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے۔ تحریک انصاف نے جس طرح پنجاب میں مسلم لیگ ن کو ہرایا اور حکومت بنائی ہے مگر سندھ میں اسی کامیابی حاصل کرنا مشکل نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف کے اتحادی جی ڈی اے اور متحدہ قومی موومنٹ مل کر شاہد کوئی تبدیلی برپا کر سکیں اس کے لیے دو سال انتظار کرنا ہو گا۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔