ن لیگ اور جی ڈی اے کا اتحاد سندھ سے پیپلز پارٹی کا اقتدار ختم کر پائے گا؟

15 سال تک کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سندھ میں کسی بھی شعبے میں کوئی خاطر خواہ ترقی یا کارگردگی نہ ہونے کے سبب آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے پاس روایتی طور پر شہدا کی قربانیوں کے ذکر اور بلاول بھٹو زرداری کی جذباتی تقاریر کے سوا عوام کو دینے، دکھانے اور بیچنے کو کچھ بھی نہیں ہو گا۔

ن لیگ اور جی ڈی اے کا اتحاد سندھ سے پیپلز پارٹی کا اقتدار ختم کر پائے گا؟

پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلسل 15 سالوں سے سندھ پر اپنی گرفت برقرار رکھی ہے۔ ایک مؤثر اپوزیشن کی کمی کے ساتھ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی زیادہ عرصہ تک حاصل ہونے والی سپورٹ اور دیگر مختلف عوامل کی وجہ سے بظاہر ناقابل شکست دکھائی دیتی ہے۔ اس غلبے کے باوجود صوبے میں ایک وسیع البنیاد سیاسی اتحاد بننے جا رہا ہے جو ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کی سیاسی پوزیشن کو چیلنج کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔

پی پی پی مخالف ممکنہ اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے) جو 6 چھوٹی سیاسی جماعتوں یا گروپوں کا اتحاد ہے، جس میں پیر پگاڑا کی مسلم لیگ (فنکشنل) نمایاں پوزیشن کی حامل ہے، پی پی پی مخالف روایتی سیاسی شخصیات، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور چھوٹی بڑی قوم پرست جماعتوں پر مشتمل ہو گا۔ اس اتحاد کو ممکنہ طور پر پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی جانب سے وسیع سیاسی حمایت بھی حاصل ہو گی۔

سابق پولیس افسر اور سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن حال ہی میں مسلم لیگ نواز میں شامل ہونے کے بعد سیاسی طور پر انتہائی سرگرم ہیں۔ ان کی حالیہ مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ پیر پگاڑا سے ملاقات کو سیاسی حلقے دلچسپی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بشیر میمن کے بھائی نصیر میمن نے 2018 کا الیکشن مسلم لیگ (فنکشنل) کے پلیٹ فارم سے پیپلز پارٹی کے مشہور سیاسی رہنما مخدوم امین فہیم کے بھائی کے خلاف لڑا تھا اور وہ تاحال مسلم لیگ (فنکشنل) میں ہی شامل ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بشیر میمن کو بیک وقت سندھ کے معاملات پر نواز شریف اور پیر پگاڑا کی بھرپور حمایت اور اعتماد حاصل ہے اور بشیر میمن کی کوششوں سے دونوں جماعتوں کی سربراہی میں سندھ میں اپوزیشن کا ایک وسیع البنیاد اتحاد بننے کے واضح امکانات ہیں۔

گو آئندہ عام انتخابات کا بڑا سیاسی میدان پنجاب ہے، جہاں مسلم لیگ (ن) کو سخت مشکل صورت حال کا سامنا ہے، تاہم ن لیگ سندھ میں پی پی پی مخالف اتحاد کی حمایت کرے گی۔ مزید براں مسلم لیگ نواز کی اس سیاسی سرگرمی کا مقصد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سندھ سے چند نشستیں حاصل کرنا بھی ہے تاکہ اس کے صرف پنجاب کی جماعت ہونے کے تاثر کی نفی اور قومی سطح کی سیاسی جماعت ہونے کے تاثر کو اجاگر کیا جا سکے۔

اس کوشش کو تقویت دینے کے لیے نواز شریف اور مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت مستقبل قریب میں سندھ کا دورہ کرے گی، جہاں کئی سینیئر سیاسی شخصیات کی پارٹی میں شمولیت بھی متوقع ہے جبکہ اس موقع پر مجوزہ سیاسی اتحاد کا باضابطہ اعلان کیے جانے کا بھی امکان ہے۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے مرکزی قائد نواز شریف کے خلاف پی پی پی کے جارحانہ مؤقف، پیپلزپارٹی کی جانب سے تحریک انصاف سے ممکنہ اتحاد کے اشاروں نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو سندھ پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کیا ہے تاکہ پیپلز پارٹی کو اس کے مضبوط گڑھ میں پریشان کیا جا سکے۔

گھوٹکی اور شکارپور کے مہر سردار علی گوہر اور غوث بخش جیسی اہم سیاسی شخصیات کی پی پی پی صفوں میں حالیہ شمولیت نے سندھ کے اپوزیشن حلقوں کے حوصلے پست کیے ہیں جبکہ پی پی پی نے کامیابی کے ساتھ طاقتور حلقوں یا اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہونے کے تاثر کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت اور نگران حکومت پر اپنا کنٹرول بھی برقرار رکھا ہے۔ اسی تاثر نے سندھ میں پی پی پی کی سیاسی مضبوطی میں اہم کردار کرنے کے ساتھ، مرکزی اور وفاقی سطح پر مذاکرات کے لیے اس کی پوزیشن کو مضبوط بھی کیا ہے۔ سیاسی حریف سندھ میں موجودہ نگران حکومت کو پی پی پی کے سابقہ دور حکومت کا تسلسل سمجھتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے خود کو ناقابل تسخیر پارٹی کے طور پر پیش کرنے کے باوجود، کچھ سیاسی شخصیات اور گروہ سندھ میں اپنی سیاسی اہمیت اور تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں، جن میں جے یو آئی (ف) کے راشد محمود سومرو، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سید زین شاہ، سندھ ترقی پسند پارٹی کے ڈاکٹر قادر مگسی، قومی عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو اور ڈاکٹر ذوالفقار جیسی بااثر شخصیات شامل ہیں۔ مرزا، ڈاکٹر صفدر عباسی، موزم عباسی، لیاقت جتوئی اور ارباب رحیم بھی ان میں شامل ہیں۔

دوسری جانب سندھ کے شہری علاقوں کی مؤثر قوتیں جماعت اسلامی، ایم کیو ایم (پاکستان) بھی پیپلز پارٹی کے انداز سیاست سے نالاں نظر آتی ہیں اور وہ بھی ممکنہ طور پر اس سیاسی اتحاد کا باقاعدہ حصہ نہیں تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی سطح پر اتحاد ضرور قائم کر سکتی ہیں۔

نومبر کے آخر تک صوبے کی سطح پر سیاسی منظرنامہ واضح ہو جائے گا کہ پی پی پی اپنے گڑھ میں مضبوط پوزیشن برقرار رکھتی یے یا اپوزیشن کی حکمت عملی کی وجہ سے ان کا ناقابل تسخیر 15 سالہ اقتدار اختتام کو پہنچے گا۔

ان باتوں کا جواب تو آئندہ وقت ہی دے گا لیکن ایک بات واضح ہے کہ سندھ کے اکثریتی عوام اور سیاسی الیکٹ ایبلز کے لیے کسی مؤثر سیاسی متبادل کی عدم موجودگی کے سبب پہلی اور آخری چوائس پیپلز پارٹی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی عوام کی بڑی اکثریت پیپلز پارٹی کے انداز سیاست، بے انتہا کرپشن، نااہلی، سسٹم کے نام سے ریاست کے اندر ریاست اور چند لاڈلوں کے راج کی وجہ سے خفا ہے۔

15 سال تک کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سندھ میں کسی بھی شعبے میں کوئی خاطر خواہ ترقی یا کارگردگی نہ ہونے کے سبب آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے پاس روایتی طور پر شہدا کی قربانیوں کے ذکر اور بلاول بھٹو زرداری کی جذباتی تقاریر کے سوا عوام کو دینے، دکھانے اور بیچنے کو کچھ بھی نہیں ہو گا۔

کوئی بھی مؤثر سیاسی اتحاد پیپلز پارٹی کی ان کمزوریوں کو اگر مؤثر طریقے سے استعمال کرے تو پارٹی کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

امداد سومرو سندھ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی ہیں۔