سندھ کا دارالحکومت کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اسے ملک کا سب سے متنوع آبادی والا، کاسموپولیٹن شہر اور 'پاکستان کا معاشی مرکز' بھی سمجھا جاتا ہے۔ 19 ویں صدی کے وسط تک کراچی ایک غیر معروف اور معمولی تاریخی حیثیت رکھنے والا شہر تھا جہاں زیادہ تر ماہی گیری ہوتی تھی۔ انگریزوں نے 1843 میں اس پر قبضہ کر لیا اور اسے ایک اہم بندرگاہی شہر میں تبدیل کر دیا۔ انگریزوں نے کراچی کو باقی سندھ سے الگ کر کے نام نہاد 'بمبئی پریزیڈنسی' کا حصہ بنا دیا۔ 20 ویں صدی کے اوائل تک کراچی ایک پھلتا پھولتا شہر بن چکا تھا جہاں تاجروں اور کاروباری حضرات کا غلبہ تھا۔ 1936 میں شہر کو دوبارہ صوبہ سندھ کا حصہ بنا دیا گیا۔
1947 میں پاکستان بننے تک سندھی اس شہر کا سب سے بڑا نسلی گروہ تھا۔ لیکن جب کراچی نئے ملک کا وفاقی دارالحکومت بنا تو اسے ایک بار پھر صوبہ سندھ سے الگ کر دیا گیا۔ کراچی کا انفراسٹرکچر خاصا پائیدار تھا جس پر اس وقت شدید دباؤ پڑا جب بھارت سے لاکھوں اردو بولنے والے مسلمان ('مہاجر') ہجرت کر کے یہاں آ بسے۔ 1951 تک شہر میں مہاجر کمیونٹی اکثریت میں آ چکی تھی۔ 1959 میں کراچی پاکستان کا دارالحکومت نہ رہا۔ 1960 کی دہائی میں شہر میں بڑے پیمانے پر صنعتی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ ان سرگرمیوں نے تازہ مہاجرین کو اپنی جانب راغب کیا۔ ان میں زیادہ تر پشتون تھے جن کا تعلق صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) سے تھا۔
1970 سے 1980 کی دہائی کے اوائل تک کراچی کی انتخابی سیاست پر جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کا غلبہ رہا۔ دونوں جماعتوں کو بڑی حد تک شہر کی مہاجر کمیونٹی کی حمایت حاصل تھی۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت (1977-88) کے دوران کراچی کی مقامی انتظامیہ جماعت اسلامی کے ہاتھوں میں آ گئی۔ اس عرصے کے دوران شہر میں پرتشدد نسلی فسادات رونما ہوئے۔ ان فسادات کے بطن سے مہاجر قومی موومنٹ (MQM) کا جنم ہوا۔ نئی جماعت نے سرگرم انداز میں مہاجر کمیونٹی کو اسلامی جماعتوں سے دور کر دیا اور ایک 'مہاجر قوم پرستی' تشکیل دینا شروع کر دی۔
1988 سے 2013 تک شہر کی انتخابی سیاست پر ایم کیو ایم کا غلبہ رہا۔ لیکن 2016 سے ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔ تب تک شہر کی مہاجر آبادی کم ہو کر 42 فیصد رہ گئی تھی۔ ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ سے خالی ہونے والی جگہ کو سب سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے پُر کیا۔
2018 کے انتخابات میں یہاں سے قومی اسمبلی کی 14 نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی۔ ایم کیو ایم کے حصے میں 4 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں 3 نشستیں آئیں۔ کراچی میں بسنے والے پختون ووٹرز نے بھاری تعداد میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ بہت سے مہاجر ووٹرز نے بھی یہی کیا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی ملک کے ان اولین شہروں میں سے ایک تھا جہاں سے پی ٹی آئی کی حمایت کم ہونا شروع ہوئی۔ پی ٹی آئی حلقوں کی سیاست کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ ایم کیو ایم کے کمزور ہونے اور 2018 میں آنے والی ' پی ٹی آئی لہر' کا جوش تیزی سے کم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی نے کراچی کے لیے ایک نئی حکمت عملی ترتیب دی۔
پیپلز پارٹی 2008 سے صوبہ سندھ پر حکومت کر رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ کراچی سے باہر اندرون سندھ میں اس کی انتخابی کامیابی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت میں بنی سندھ حکومت نے کراچی، خاص طور پر شہر کے کثیر النسلی اضلاع کے لیے اضافی وسائل مختص کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری جانب ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ اور پی ٹی آئی کے لیے بڑھتی عوامی مایوسی کو جماعت اسلامی نے ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھا جس کے ذریعے وہ کراچی میں اپنی واپسی کا راستہ ہموار کر سکتی تھی۔ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے حلقوں کی سیاست پر توجہ مرکوز کی اور اس حکمت عملی کا دونوں جماعتوں کو بھرپور فائدہ بھی ہوا۔ 2023 کے بلدیاتی انتخابات میں سخت مقابلے کے بعد پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی کو شکست سے دوچار کر دیا۔ ایم کیو ایم (جو اب ایم کیو ایم پاکستان ہے) نے ان بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔
ٹرن آؤٹ چاہے جتنا بھی کم ہو مگر ووٹروں کی تعداد سروے میں استعمال ہونے والے سیمپل سائز کے مقابلے میں بہت زیادہ بنتی ہے، اس لیے 2023 کے بلدیاتی انتخابات کے دوران ڈالے گئے ووٹوں کا پیٹرن دیکھ کر یہ تعین کیا جا سکتا ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں کراچی والے کس جماعت کو ووٹ دیں گے۔ اس ووٹنگ پیٹرن کے مطالعے کے علاوہ میں نے پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم پاکستان کے بعض کارکنان کے انٹرویوز بھی کیے ہیں تا کہ کراچی سے متعلق محتاط اندازہ لگایا جا سکے کہ یہاں سے کون جیتے گا۔
کھلا میدان
کراچی شہر کو 7 اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے؛ ڈسٹرکٹ سینٹرل، ڈسٹرکٹ ایسٹ، ڈسٹرکٹ ویسٹ، ڈسٹرکٹ ساؤتھ، ڈسٹرکٹ کورنگی، ڈسٹرکٹ کیماڑی اور ضلع ملیر۔ عام انتخابات میں ان اضلاع سے تقریباً 95 لاکھ شہری ووٹ ڈالیں گے۔
ڈسٹرکٹ سینٹرل
یہ کراچی کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا ضلع ہے۔ یہاں کی لگ بھگ 70 فیصد آبادی مہاجر کمیونٹی پر مشتمل ہے۔ 2013 تک یہ ضلع ایم کیو ایم کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ تاہم 2018 کے الیکشن میں اس ضلع میں قومی اسمبلی کی 4 میں سے 2 نشستیں ایم کیو ایم پاکستان اور 2 پی ٹی آئی نے جیتی تھیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہاجر ووٹرز کی ایک بڑی تعداد نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے تھے۔
2023 کے بلدیاتی انتخابات کا ایم کیو ایم پاکستان نے بائیکاٹ کیا تھا، ان میں جماعت اسلامی یہاں کے مہاجر ووٹوں کی بہت بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب رہی۔ جماعت اسلامی کو توقع ہے کہ 8 فروری کو وہ اس ضلع سے قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو گی۔ لیکن چونکہ اب ایم کیو ایم پاکستان بھی انتخابی معرکے میں واپس آ چکی ہے تو اس ضلع میں جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے مابین سہ رخی مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔
جماعت اسلامی کو خدشہ ہے کہ اس ضلع میں موجود مہاجروں کا کثیر ووٹ بینک تین جماعتوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ ایم کیو ایم پاکستان کو بھی اس کا احساس ہے لیکن اسے پھر بھی امید ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد کو واپس لانے میں کامیاب ہو جائے گی جو 2018 میں پی ٹی آئی کی طرف چلے گئے تھے۔
ممکنہ نتیجہ
اس ضلع میں ایم کیو ایم پاکستان باقی دونوں جماعتوں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے، لیکن مہاجر ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے اس ضلع میں آباد چھوٹے نسلی گروہوں کے ووٹ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کے پلڑے میں جا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا اثر اس ضلع میں کمزور ہے۔
ڈسٹرکٹ ایسٹ
اس ضلع میں متعدد نسلی گروہ آباد ہیں جن میں سے مہاجر کمیونٹی معمولی اکثریت میں ہے۔ ضلع میں پختون، پنجابی اور سندھی آبادی بھی نمایاں تعداد میں موجود ہے۔ 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے اس ضلع سے قومی اسمبلی کی چاروں نشستیں جیتی تھیں۔ لیکن بلدیاتی انتخابات کے دوران یہاں کے مہاجر ووٹ کافی زیادہ تعداد میں جماعت اسلامی کو پڑے تھے۔ غیر مہاجر ووٹرز کی بڑی تعداد پیپلز پارٹی کے ساتھ تھی۔
ممکنہ نتیجہ
8 فروری کے انتخابات میں یہاں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم پاکستان کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے دوران اس ضلع سے جماعت اسلامی نے 19 اور پیپلز پارٹی نے 15 نشستیں جیتی تھیں جبکہ پی ٹی آئی کے حصے میں کوئی سیٹ نہیں آئی تھی۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی واپسی سے اس ضلع کی انتخابی صورت حال پر کیا اثر پڑتا ہے۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی دونوں جماعتوں کو محسوس ہو رہا تھا کہ انہوں نے ایم کیو ایم کے اس سابق گڑھ میں گرفت مضبوط کر لی ہے لیکن عام انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان اس دعوے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے گی۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
پیپلز پارٹی کی نظر اس ضلع میں آباد غیر مہاجر ووٹرز پر ہے، خاص طور پر ان پختون ووٹرز پر جنہوں نے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے بجائے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار پختون اور مہاجر ووٹ واپس لینے کی کوشش میں ہیں جو 2023 کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کی جانب چلا گیا تھا۔
ڈسٹرکٹ ویسٹ
اس ضلع میں مہاجر کمیونٹی 50 فیصد آبادی کے ساتھ اکثریت میں ہے مگر مہاجر کمیونٹی کے علاوہ یہاں پشتون بھی نمایاں تعداد میں آباد ہیں۔ 2018 میں یہاں پر قومی اسمبلی کی 5 نشستیں تھیں جن میں سے 3 پر پی ٹی آئی جبکہ 1، 1 پر ایم کیو ایم پاکستان اور پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ بلدیاتی انتخابات کے دوران حلقوں کی متحرک سیاست کی بنا پر پیپلز پارٹی یہاں سے اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کو ناصرف سندھی ووٹ ملے بلکہ ضلع میں آباد پختون ووٹوں کا بھی بڑا حصہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
ممکنہ نتیجہ
ایم کیو ایم پاکستان کی کوشش ہو گی کہ وہ اس ضلع میں آباد مہاجروں پر اپنا اثر و رسوخ پھر سے قائم کر سکے جن کا ووٹ ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں تقسیم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو بلدیاتی انتخابات میں جس طرح یہاں کی پشتون آبادی کے ووٹ ملے، اسے امید ہے کہ پھر سے پشتون ووٹ حاصل کر کے وہ اس ضلع سے 3 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
ڈسٹرکٹ ساؤتھ
یہ ضلع مکمل طور پر کثیر النسل آبادیوں پر مشتمل ہے۔ اس ضلع میں شہر کے بعض انتہائی متمول علاقوں کے ساتھ ساتھ کچھ بڑے ورکنگ کلاس علاقے بھی شامل ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں یہاں قومی اسمبلی کی دونوں سیٹیں پی ٹی آئی نے جیتی تھیں۔ تاہم بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے یہاں سے واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ یہ کامیابی خاص طور پر ان ووٹوں کی بدولت ممکن ہوئی جو اس ضلع کے غیر مہاجر ورکنگ کلاس لوگوں نے اسے دیے تھے۔
ممکنہ نتیجہ
اس ضلع میں اب قومی اسمبلی کی 3 نشستیں ہیں جن میں سے متوقع طور پر 2 سیٹیں پیپلز پارٹی جیتے گی۔ پی ٹی آئی کو اس ضلع کے متمول علاقوں میں سے ووٹ ملنے کا امکان ہے، لیکن انہی علاقوں میں سے کچھ ووٹ آزاد امیدوار جبران ناصر کو بھی ملیں گے۔
ووٹوں کی اس تقسیم سے پیپلز پارٹی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی پوری کوشش ہو گی کہ وہ اس ضلع میں اپنے مہاجر ووٹوں کو پھر سے حاصل کرنے میں کامیاب ہو لیکن پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار اس کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے کیونکہ یہاں سے پشتون ووٹر کھو جانے کے بعد پی ٹی آئی بھی کوشش کرے گی کہ مہاجر ووٹ اسے ملیں۔ اس ضلع میں جماعت اسلامی کمزور پوزیشن میں ہے، لیکن وہ بھی مہاجر ووٹ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے۔
ضلع ملیر
ضلع ملیر میں سندھی آبادی معمولی اکثریت میں ہے۔ 2018 میں یہاں قومی اسمبلی کی 3 میں سے 2 سیٹیں پیپلز پارٹی جبکہ 1 سیٹ پی ٹی آئی نے جیتی تھی۔ 2023 کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اس ضلع میں کلین سویپ کیا تھا۔ پیپلز پارٹی اس ضلع کے پختون ووٹرز کو بھی راغب کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
ممکنہ نتیجہ
عام انتخابات میں امکان ہے کہ ضلع ملیر میں پیپلز پارٹی کلین سویپ کرے گی۔
ضلع کورنگی
ضلع کورنگی میں مہاجر آبادی اکثریت میں ہے۔ یہ ضلع کسی وقت ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ 2018 میں ایم کیو ایم پاکستان نے اس ضلع کی 3 میں سے 2 نشستیں اپنے نام کی تھیں جبکہ 1 سیٹ پی ٹی آئی کے حصے میں آئی تھی۔ تاہم بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے یہاں سے واضح اکثریت حاصل کی تھی۔
2018 کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت تحریک لبیک (ٹی ایل پی) اگرچہ یہاں سے قومی اسمبلی کی سیٹ تو جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکی مگر کثیر تعداد میں ووٹ ضرور لے گئی۔ تحریک لبیک جس نے کراچی کے نچلے متوسط طبقے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ تاہم ایم کیو ایم پُراعتماد ہے کہ وہ اس ضلع میں اپنا کھویا ہوا ووٹ بینک دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
ممکنہ نتیجہ
ضلع کورنگی کے حلقوں میں اصل مقابلہ ایم کیو ایم پاکستان، پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں، تحریک لبیک اور جماعت اسلامی کے مابین ہو گا۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ تحریک لبیک ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کا کتنا ووٹ 'ضائع' کروا پاتی ہے۔ یہاں پیپلز پارٹی کی پوزیشن کمزور ہے۔
ضلع کیماڑی
2020 میں تشکیل دیے گئے اس نئے ضلع میں بھی متعدد نسلی گروہ آباد ہیں۔ اس میں قومی اسمبلی کی 2 نشستیں ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں یہ ضلع پیپلز پارٹی کے نام رہا تھا۔
ممکنہ نتیجہ
امکان ہے کہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اس ضلع سے فاتح ٹھہرے گی کیونکہ اسے یہاں بسنے والے ورکنگ کلاس پشتونوں اور سندھی ووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔
کراچی کا مجموعی نتیجہ کیا رہے گا؟
توقع کی جا رہی ہے کہ کراچی سے پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی 6 سے 8 نشستیں ملیں گی۔ ایم کیو ایم پاکستان کو 4 سے 6، جماعت اسلامی کو 2 سے 3 جبکہ تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو 2 سے 4 سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔
پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی اپنی اپنی انتخابی مہم میں حلقوں کی سیاست پر توجہ دینے کی بات کرتی رہی ہیں کیونکہ اسی نکتے کی بنیاد پر دونوں جماعتوں کو بلدیاتی انتخابات میں کامیابی ملی تھی۔
ایم کیو ایم پاکستان اپنے مہاجر قوم پرست ووٹ بینک کو پھر سے متحرک کرنے کی کوشش میں ہے، جبکہ گزشتہ سال 9 اور 10 مئی کے پرتشدد ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف جو کریک ڈاؤن جاری ہے، اس کی بنیاد پر پی ٹی آئی 'ہمدردی کا ووٹ' لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
تاہم کراچی 'جذباتی' شہر نہیں ہے۔ کراچی میں پی ٹی آئی کا جتنا بھی 'ہمدردی کا ووٹ' ہے وہ مخصوص مڈل اور اپر کلاس مہاجر کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے۔
**
ندیم فاروق پراچہ کا یہ تجزیہ The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔