آئین و قانون کی حکمرانی یقینی بنانا سپریم کورٹ کے لیے بڑا چیلنج ہے

سپریم کورٹ سے ابھرنے والی آوازیں آئین و قانونی کی حکمرانی کی نوید دے رہی ہیں۔ حق و انصاف پر مبنی یہ آوازیں لمبے عرصے سے انتظامی اختیارات کے زیر عتاب رہ کر دبی ہوئی تھیں۔ اب ان کو آزادی ملی ہے تو نہ صرف گونج رہی ہیں بلکہ اپنے راستے میں حائل رکاوٹوں کی بھی نشاندہی کر رہی ہیں۔

آئین و قانون کی حکمرانی یقینی بنانا سپریم کورٹ کے لیے بڑا چیلنج ہے

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر قانونی ماہرین کی مختلف آرا ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس فیصلے سے آئین و قانون کی حکمرانی کی فتح ہوئی ہے۔ جو فیصلے اختیارات کی بھینٹ چڑھے ہوئے تھے ان کو اب آزادی مل گئی ہے اور اب مشاورت سے فیصلے ہوں گے جن میں یقیناً شخصی اجارہ داری سے نجات ملے گی۔

اس وقت اگر جسٹس بندیال چیف جسٹس ہوتے تو فیصلہ مختلف آتا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک چیف جسٹس کے بدلنے سے فیصلوں میں یکسر تبدیلی آ جاتی ہے۔ اگر آج بندیال ہوتے تو وہ اپنی مرضی کا بنچ بنا کر اپنی مرضی کا فیصلہ لے لیتے اور یہ مرضی کے فیصلوں کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا۔ کیا اسے آئین و قانون کی حکمرانی کہا جا سکتا ہے؟ وہی عدالت، وہی آئین اور وہی قانون مگر ایک شخص کے بدل جانے سے فیصلے بدل جاتے ہیں۔

رائے میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے مگر اس کی بنیاد ہمیشہ آئین و قانون، انصاف کے اصول، عدل، انسانی حقوق کی پاسداری اور مفاد عامہ کو ہونا چاہئیے مگر حیرت ہوتی ہے جب اختلافات کی بنیاد عناد، ضد، ہٹ دھرمی اور ذاتی مفادات بن جاتے ہیں۔

بندیال دور میں چیف جسٹس کے اختیارات کے تحت جو کچھ ہوتا رہا اس پر آوازیں بھی اٹھتی رہیں مگر وہ سلسلہ جاری رہا اور اب اگر اس کے برعکس چیف جسٹس کے اختیارات کو سپریم کورٹ کے سینیئر ترین ججز کے سپرد کیا جا رہا ہے تو بھی اس پر اعتراضات موجود ہیں۔ کچھ ایسے بھی کام ہوتے رہے جن کی آئین و قانون میں کوئی گنجائش نہیں تھی مگر ان کو اپنی خواہشات کے تحت پیدا کر لیا گیا اور اگر آج ان خواہشات کا راستہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو بھی ججز سے لے کر وکلا تک کئی اس میں روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اب ملک کو آگے بڑھنا ہے، یہ الفاظ تھے چیف جسٹس آف پاکستان کے جن کا صبر لگتا ہے جواب دے چکا ہے۔ انہوں نے بڑا برملا کہا کہ وکلا کیوں نہیں بولتے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کے تحت کیا ہوتا رہا اور سپریم کورٹ کیسے فرد واحد کے اقدامات کو تحفظ فراہم کرتی رہی۔ اگر کوئی یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتا تو میں بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان یہ کہنے کی جرات رکھتا ہوں۔ اب یہ کھلواڑ مزید نہیں چلے گا۔ آئین و قانون کی بات چلے گی۔ ملک کو آگے بڑھنا ہے۔

سپریم کورٹ سے ابھرنے والی آوازیں آئین و قانونی کی حکمرانی کی نوید دے رہی ہیں۔ حق و انصاف پر مبنی یہ آوازیں جن کی بنیاد تربیت، سوچ، عمل، جذبہ، جرات اور قوت ایمانی ہے، لمبے عرصے سے انتظامی اختیارات کے زیر عتاب رہ کر دبی ہوئی تھیں۔ اب ان کو آزادی ملی ہے تو نہ صرف گونج رہی ہیں بلکہ ان وجوہات کی بھی نشاندہی کر رہی ہیں جو ان کی راہ کی رکاوٹ بنی ہوئی تھیں اور ساتھ ہی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کر کے ان کے ازالے کا بھی اعادہ کیا جا رہا ہے۔

ایسی آوازوں کی آزادی کے لئے قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذات ان سے گزر چکی ہے جن پر وہ مستقل مزاجی کے ساتھ ڈٹے رہے اور شاید عزت بخشنے والی ذات کی طرف سے ان کی آواز کو بھٹی سے گزار کر کندن بنانا مقصود تھا۔ جب ان کے مخالفیں اپنی تمام تر طاقت، اختیارات اور وسائل کے باوجود کچھ بھی ثابت نہ کر سکے تو مجبوراً ان کو اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا پڑا جس سے آج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آوازوں کو وہ طاقت ملی جس سے باطل لرز رہا ہے۔

جب حق بات اور اس کے لئے قربانیوں کی بات ہو تو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جو سپریم کورٹ سے انصاف کے متلاشی ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے نڈر، حق گو اور جید لوگوں کی صلاحیتوں سے قوم کو مستفید کرنے کے لئے ان کو اہم ذمہ داریاں سونپی جانی چاہئیں۔ ان قربانیوں میں وکلا برادری نے بھی ساتھ دیا اور ان کی یہ کوشش بھی قابل ستائش ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی آوازوں کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ان کو مستقبل میں پھر سے زیر عتاب نہ لایا جا سکے جس کے لئے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی سابقہ پارلیمان کی طرف سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنانا بھی تھا جس سے سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات کو ایک فرد واحد سے لے کر مشاورتی کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔ اس قانون کی بنیاد بھی سپریم کورٹ اور وکلا برادری کے اندر سے اٹھنے والی آوازیں ہی تھیں جن میں نمایاں آواز موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی کی تھی جس کا اظہار وہ اپنے بنچز میں اپنے کمنٹس اور اس وقت کے چیف جسٹس کے نام خطوط میں کرتے رہے ہیں۔ ویسے تو انتظامی امور کے اثرات کی بنیاد عہدے پر بیٹھے ہوئے فرد واحد یا اختیاراتی کمیٹی کی سوچ پر منحصر ہوتی ہے لیکن پھر بھی فرد واحد کے بجائے ایک مشاورتی کمیٹی کے فیصلوں کے اندر اچھے نتائج کی امید زیادہ رکھی جا سکتی ہے۔

سابقہ سماعتوں کے دوران بھی چیف جسٹس کھل کر اپنی سوچوں اور ارادوں کا اظہار کرتے رہے۔ خاص طور پر ملک پر غاصب آمریت کی بات کی اور اس کی حمایت میں سپریم کورٹ کے اندر سے جو کھلواڑ ہوتے رہے ان کا بھی ذکرکیا اور وہاں لگی ہوئی سابق چیف جسٹسز کی تصویروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے ادارے کی غلیطوں کا کھلے دل سےاعتراف کیا اور وکلا کو بھی اس میں اپنے کردار کی تلقین کی۔ اسی مقدمے کی ایک سماعت کے دوران انہوں نے ریکوڈک کیس کا حوالہ دیا اور اس سے پاکستان کو پہنچنے والے مالی نقصان کا بھی اظہار کیا۔ کارروائی کے دوران کئی ایسے مزاح بھرے لمحات بھی آئے جن میں 'بات بیٹی کے ساتھ اور اشارہ بہو کی طرف' کا سماں تھا۔ ججز اپنے ساتھی ججز کے جواب وکیلوں کو مخاطب کر کے دینے کی کوشش کرتے رہے جن میں سامعین اور عوام کے لئے یقیناً محظوظ ہونے کا ساماں تھا۔ ان درخواستوں کو مسترد کر دینا خوش آئند ہے اور قانونی ماہرین اس فیصلے کی تعریف کر رہے ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ماسوائے تحریک انصاف کے اور وکلا برادری سوائے چند سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران کے سب ایکٹ کے حق میں تھے۔

وہ فیصلہ جس کی پاداش میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کے خلاف ریویو پر بھی سماعت چل رہی ہے جو ایک انتہائی ڈرامائی موڑ میں داخل ہو رہی ہے اور ریویو فائل کرنے والے تقریباً تمام فریقین بشمول پی ٹی آئی اپنی درخواستوں کو واپس لینے کی استدعا کر رہے ہیں جس سے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ سب کسی کے دباؤ کے تحت ریویو میں آئے تھے۔ اب وہ فیصلہ خود بخود ہی حتمی درجہ حاصل کر لے گا بلکہ اب اس پرعمل درآمد کی صورت حال اور درخواستوں کو واپس لینے والوں سے وجوہات پوچھی جا رہی ہیں اور امید ہے کہ سپریم کورٹ کے لئے انسانی حقوق کی پاسداری اور آئین و قانونی کی حکمرانی کے لئے درست سمت میں آگے بڑھنے کی راہیں کھُلیں گی۔

دوران سماعت چیف جسٹس کے دیے گئے کمنٹس اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ اپنے ذاتی اختیارات کے حصار سے باہر نکل کر مشاورتی اختیارات کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں انتظامی اختیارات کے استعمال کی ایک نئی روایت ڈال کر ملکی بہتری اور مفاد عامہ کی سوچ کے تحت فیصلے کر کے عدل کا اعلیٰ معیار قائم کرنا چاہتے ہیں جس سے عوام کے اعتماد کو بحال اور نظام عدل کی درجہ بندی کو عالمی سطح پر درست کیا جا سکے۔ اسی نوعیت کی اور اصلاحات جو سپریم کورٹ یا سپریم جوڈیشل کونسل کے آئینی و قانونی دائرہ اختیار میں آتی ہیں پر بھی کام شروع ہو چکا ہے جن میں ججز کی تعیناتی اور احتساب کا عمل بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری لاء آفیسرز جن میں اٹارنی جنرلز، ایڈووکیٹ جنرلز اور پراسیکیوٹرز اور ان کے ساتھ وکلا کی نمائندہ ایسوسی ایشنز کے ممبران کو بھی انصاف کی شفاف اور تیزرفتاری کے ساتھ فراہمی کے لئے تجاویز لینے کے لئے دعوت دی گئی۔

اسی طرح عدالتوں سے مقدمات پر صحیح رپورٹنگ اور معلومات کو عوام تک پہنچانے کے لئے سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے ممبران سے بھی ملاقات کر کے ان کی تجاویز لی گئیں جو یقیناً ایک خوش آئند بات ہے۔ ہائی کورٹس کے انصاف کے اصولوں کے خلاف کئے گئے فیصلوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں جن میں متوقع درخواستوں کے خلاف بھی ضمانتیں لی جاتی رہی ہیں جس سے امید کی جاتی ہے کہ عدالتیں اپنی کارروائیوں میں محتاط رہیں گی۔ اسی طرح وہ ان تعلیمی اداروں جن کی کمیٹیوں کے ممبر ہیں، میں بھی بڑی تبدیلیوں کے خواہاں ہیں اور اسی سلسلے میں انہوں نے قائد اعظم یونورسٹی میں طلبہ تنظیموں کی بحالی پر اپنی رائے دی تھی۔

جب عدل کے اعلیٰ معیار سے معاشرے کے اندر انصاف کا بول بالا ہوتا ہے تو حالات خود بخود بہتری کی طرف آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ظلم کے خلاف جب مظلوم کی داد رسی ہوتی ہے تو دکھی دلوں سے نکلنے والی دعائیں بھی بلا رکاوٹ عرش معلیٰ پر قبولیت کا درجہ پا کر ایسی آوازوں کے خلاف ڈھال بن جاتی ہیں اور عرش بریں سے رحمت برسنے لگتی ہے۔ آج کل ایسے ہی ماحول کے آثار کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اس ماحول کو نظر بد سے بچائے۔

سماعت کے دوران عجب تاثرات دیکھنے کو ملتے رہے۔ ججز اور وکلا میں کسی نقطے پر اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ قانونی رائے میں فرق بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر دلیل منطقی ہو تو ہر ایک کو سراہنا پڑتا ہے لیکن اس کے برعکس اگر غیر منطقی ہو تو پھر تعجب بھی ہوتا ہے۔

ججز کے رویوں کی عدالتی رائے سے کشمکش بھی دیکھنے کو ملی جس سے اچھا تاثر نہیں ابھرا۔ مثلاً کچھ ججز کے علم اور مطالعہ کو داد دینے کو دل کرتا ہے مگر ان کے کمنٹس سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ان کا علم ان سے یہ تقاضا کر رہا ہو کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر آ کر ججز کے سامنے اس ایکٹ کی مخالفت میں کھڑے ہو جائیں۔ وہ اکثر وکلا کو قانونی نقظے تجویز کرتے ہوئے دیکھے جاتے رہے۔

علم جس کی بنیاد آئین و قانون سے وفاداری یا اصولوں کی پاسداری نہ ہو وہ کبھی بھی انسان کو سرخرو نہیں کرواتا بلکہ وہ ایک شرمساری کی روداد اور گمراہی کی بنیاد بن جاتا ہے اور آج دنیا میں حقوق و ذمہ داریوں اور اختیارات کے نام پر جو تباہی ہو رہی ہے وہ اسی کا شاخسانہ ہے۔

اس فیصلے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی نتیجہ نکلنا تھا تو اس قانون کو متنازعہ بنا کر ایک قومی سطح کی عدالت جس میں عوام کے ہزاروں مقدمات زیر التوا پڑے ہیں کا وقت، پیسہ اور توانائی ضائع کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ جنہوں نے اس مسئلے کو اٹھایا یا وہ جنہوں نے اپنے ذاتی اختیارات کے تحفظ کی خاطر اس پر سٹے آرڈر جاری کر کے عدالت عظمیٰ کے معاملات کو تزلزل کا شکار کر دیا اور سپریم کورٹ اور عوام کے اندر ایک آنجہانی کیفیت کو پیدا کر کے ہر طرح کے وسائل کے ضیاع کا سبب بنے۔ کیا ہم اسی طرح اپنی قومی صلاحیتوں کو فضول سوچوں اور کاموں پر ضائع کرتے رہیں گے اور کب تک ایسا چلتا رہے گا؟