ہڈن فگرز؛ نسل پرست امریکہ میں چاند مشن سے جڑی خواتین کی کہانی

فلم تین جینیئس اور بہادر خواتین کی کہانی ہے جنہوں نے ناسا میں بہترین کام کیا اور انسان کو چاند پر پہلا قدم رکھنے میں مدد دی۔ یہ حقیقت ہے کہ عورتیں چاہے نازک اور لطیف آواز والی ہوں یا مضبوط آواز والی، دنیا کی تقدیر بدلنے کی طاقت ہمیشہ ان میں رہی ہے۔

ہڈن فگرز؛ نسل پرست امریکہ میں چاند مشن سے جڑی خواتین کی کہانی

گذشتہ ہفتے کی بڑی خبر جس نے سارے چینلز کی سکرین کو کیچ کیے رکھا یہ تھی کہ پاکستان بھی اپنا چھوٹا سا سیٹلائٹ چین کی مدد سے چاند کے مدار میں بھیج چکا ہے۔ قمر بدایونی کے بقول کہ رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے تو کیوں نہ ایک زبردست فلم کی بات کر لی جائے جو 2016 میں ریلیز ہوئی اور امریکہ کے چاند پر پہنچنے کے سفر میں خواتین کے کردار پر روشنی ڈالتی ہے۔

1960 کی دہائی ہے۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہوئے عرصہ بیت گیا۔ سپر پاور کون ہے اس کا فیصلہ دونوں عالمی جنگوں میں کروڑوں لوگوں کو قتل کر کے بھی نہ ہو سکا تھا۔ امریکہ یا روس، دنیا کو کون لیڈ کرے گا؟ اس کا فیصلہ اب میدان جنگ میں نہیں بلکہ سائنس کے میدان میں ہونا تھا۔ جس کے پاس جتنا زیادہ سائنسی علم وہی اس دنیا کا سکندر۔ دونوں ممالک چاند پر کمند ڈالنے کی دوڑ میں تھے۔ روس امریکہ سے پہلے خلا میں پہنچ کر برتری حاصل کر چکا تھا۔ اب امریکہ کا ادارہ ' ناسا' اس کوشش میں تھا کہ روس سے پہلے چاند پر امریکی جھنڈا لہرائے، چاند پر پہلا قدم امریکہ رکھے۔

یہ وہ دور تھا جب امریکی معاشرے میں انسان کو رنگ و نسل کی بنیاد پر اہمیت دی جاتی تھی۔ واش روم کون سا استعمال کرنا ہے، کس دفتر میں کیا نوکری کرنی ہے، کس لائبریری میں جانا ہے، یہ انسان کا رنگ طے کرتا تھا۔ کالے لوگ (اصل امریکی) انجینئر نہیں بن سکتے تھے۔ معاشرے میں اعلیٰ مقام صرف اس لیے نہیں مل سکتا تھا کیونکہ رنگ کالا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

' ہڈن فگرز' نامی فلم نے امریکہ کے اس دور کی خوب عکاسی کی ہے۔ فلم میں ہمیں تین کالی خواتین کی جدوجہد دکھائی دیتی ہے جنہوں نے برابری کا حق پانے کے لیے ہار نہیں مانی۔ کیتھرین گوبل، ڈورتھی اور میری جیکسن؛ یہ تینوں خواتین ناسا کے مختلف ڈیپارٹمنٹس میں کام کرتی ہیں اور تینوں کو نسل پرستی کا سامنا ہے۔

تحریر کی طوالت کے سبب میں یہاں صرف کیتھرین کا ذکر کروں گی جو کہ ناسا میں انسانی کمپیوٹر کے طور پر اپنے فرائض انجام رہی ہے اور پورے ڈیپارٹمنٹ میں واحد سیاہ فام خاتون ہے۔ کیتھرین ایک ذہین عورت ہے اور اپنے کام میں مہارت رکھتی ہے مگر ساتھ کام کرنے والے گورے کولیگز اس کو وہ عزت نہیں دیتے جس کی وہ حق دار ہے۔ کیتھرین سیاہ فام ہونے کے باعث پابندیوں کا سامنا کرتی ہے۔ وہ ناسا میں موجود باتھ روم استعمال نہیں کر سکتی کیونکہ باتھ روم کے سامنے لکھا ہے کہ یہ صرف گوروں کے استعمال کے لیے ہے۔ اس لیے اسے باتھ روم استعمال کرنے کے لیے روزانہ آدھا میل دور دوسری بلڈنگ میں جانا پڑتا ہے۔ اسی طرح جب ایک دن بارش میں بھیگی کیتھرین آدھا میل دور باتھ روم استعمال کر کے واپس آتی ہے تو اس سے مسٹر ہیریسن پوچھتے ہیں کہ تم اتنی دیر تک آفس سے روز کیوں غائب ہوتی ہو اور کہاں جاتی ہو؟

یہ سین فلم کی جان ہے۔ اس ایک سین کو جب میں نے دیکھا تو بے اختیار چیخ اٹھی کہ اس بار تو بہترین اداکارہ کا آسکر تراجی پی ہینسن کے نام ہو گا۔ تراجی پی ہینسن نے جس طرح اس سین میں پرفارم کیا، وہ بے مثال ہے۔ وہ بول رہی تھی، اس کی آواز میں دکھ اور غصہ صاف محسوس کیا جا رہا تھا۔ اس کے گلے کی رگیں اس تعصب پسندی کو جھیلتے جھیلتے پھٹنے کو تیار تھیں۔ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔ وہ دہاٸیاں دے رہی تھی اور میں سانس روکے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ ایک اداکارہ اپنی پرفارمنس کی معراج پر تھی اور مجھ پر سحر طاری تھا۔

امریکہ کے چاند پر جانے میں اس خاتون ریاضی دان کا کتنا بڑا حصہ ہے، کبھی وقت ملے تو یہ فلم ضرور دیکھیے۔

تین جینیئس اور بہادر خواتین کی کہانی جنہوں نے ناسا میں بہترین کام کیا اور انسان کو چاند پر پہلا قدم رکھنے میں مدد دی۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ عورتیں چاہے نازک اور لطیف آواز والی ہوں یا مضبوط آواز والی، دنیا کی تقدیر بدلنے کی طاقت ہمیشہ ان میں رہی ہے۔

بلاگر شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اور ان دنوں اسلام آباد میں ایک نجی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں۔