انٹرپول نے سابق وزیر خزانہ کو خط کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ وہ کسی ریڈ نوٹس پر نہیں اور ان سے متعلق کسی قسم کی کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق انٹرپول نے اسحاق ڈار سے متعلق اپنے سسٹم سے پورا ڈیٹا تلف کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے انٹرپول کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مسلم لیگ نواز اسے اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے اور جماعت کی ترجمان مریم اورنگزیب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسحاق ڈار کو سرخرو کر دیا ہے۔
مریم اورنگزیب کہتی ہیں کہ وہ انٹرپول کے فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ ملک کے اندر ڈاکو چور کا نعرہ لگانے والوں کے منھ پر طمانچہ ہے۔
اسحاق ڈار کے خلاف ریڈ نوٹس کا اجرا نہ ہونے کی خبریں اتوار کی شب سے گردش کر رہی تھیں تاہم وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر شہزاد اکبر نے بتایا کہ انٹرپول نے یہ ’ریڈ نوٹس‘ جاری کرنے سے متعلق پاکستان کی درخواست اس سال اگست میں مسترد کی تھی۔ شہزاد اکبر کے مطابق انٹرپول کی پوری کارروائی خفیہ ہوتی ہے اور اسحاق ڈار نے انٹرپول کا یہ پرانا فیصلہ میڈیا پر لا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کوئی نئی پیش رفت ہوئی ہے۔
سابق وزير خزانہ اسحاق ڈار نے ايک ٹوئٹ کے ذریعے حکومت پاکستان کی جانب سے درخواست کی منسوخی پر تمام لوگوں کے پيغامات اور نيک تمناؤں کا شکريہ ادا کيا۔
https://twitter.com/MIshaqDar50/status/1191346743411191814?s=20
یاد رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس بنا رکھا ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار ابتدائی طور پر اس ریفرنس میں اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت میں پیش ہوتے رہے لیکن بعد میں وزیر خزانہ ہوتے ہوئے وہ ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے اور پھر برطانیہ میں ہی مقیم ہو گئے۔
ان کی عدم حاضری میں عدالت نے پاکستان میں ان کے اثاثے نیلام کرنے کے فیصلہ سنایا۔
برطانیہ سے اپنے بیان میں سابق وزیر خزانہ نے اسے سیاسی انتقام قرار دیا تھا۔ اسحاق ڈار نے اپنی صفائی میں بتایا تھا کہ ان کو تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر ہدف بنایا جا رہا ہے کیونکہ ان کا نام پانامہ لیکس میں ہے اور نہ ہی 20 اپریل 2017 کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان کے بارے میں کوئی ذکر موجود ہے۔
” اسحاق ڈار کے خلاف سات بار انکوائری ہوئی“
دی نیوزسے وابستہ تحقیقاتی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں ایک خبر کے ذریعے انکشاف ہوا کہ نیب نے مختلف مواقع پر اسحاق ڈار کے خلاف انکوائریز شروع کی تاہم ہر بار تفتیشی افسران نے انکوائری کے بعد ایک ہی تجویز دی” کیس بند کیا جائے“
یہ بات بھی اہم ہے کہ 2000 سے ابتک یکے بعد دیگرے آنے والے نیب کے سربراہان نے ماتحت افسران کو اسحاق ڈار کا کیس زیر التواء رکھنے کے احکامات جاری کیے۔
دی نیوز کی رپورٹ کی مطابق اسحاق ڈار کے خلاف تفتیش 2000 میں شروع ہوئی اور 10 اپریل 2001 کو انکوئری افسر شوکت علی نے کیس کو بند کرنے کی تجویز دی تاہم 24 اپریل 2001 میں اس کیس کی انکوئری ایک اور نیب آفیسر ابوذر سبطین کو سونپ دی گئی جنہوں نے اُسی سال جولائی میں کیس کو بند کرنے کی تجویز دی۔
بعدازاں انکوئری بند کرنے کی بجائے فروری 2002 کو نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے یہ تجویز دی کہ اسحاق ڈار کے خلاف کوئی ثبوت تو سامنے نہیں آئے تاہم ان کے کیس کو زیرالتواء ہی رکھا جائے، ممکن ہے کہ اسحاق ڈار شریف خاندان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔
جولائی 2002 میں کیس میں ایک اہم موڑ آتا ہے جب استغاثہ اور ڈویژنز اسحاق ڈار کے حق میں کیس کو بند کرنے کی تجویز دیتے ہیں تاہم 27 جولائی 2002ء کو ایک بار پھر چیئرمین نیب کیس کو زیرالتواء رکھنے کے احکامات جاری کر دیتے ہیں۔
اس کے بعد 20 دسمبر 2002 کو کیس دوبارہ ری اوپن ہوتا ہے تاہم ڈائریکٹرز مانیٹرنگ ایک بار پھر کیس کو بند کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔ تاہم ڈائریکٹرز میٹنگ کے دوران فیصلہ ہوتا ہے کہ اسحاق ڈار کے شریف خاندان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے تک کیس کو زیرالتواء رکھا جائے گا۔
کیس ایک بار پھر زیر التواء رہتا ہے، 17 جولائی 2003 میں ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل اکاونٹیبلیٹی ایک فائل میں اپنے ثاثرات دیتے ہیں” میں نجم ! کیس کے بار میں چیئرمین کو بریف کر چکا ہوں، آج جب چیئرمین نیب کے سامنے فائل پیش کی گئی تو انہوں نےکہا کہ کچھ وقت کے لیے اس معاملے کو زیر التواء ہی رکھا جائے۔“
2016 میں دی نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں مخلتف دستاویزات کا حوالہ بھی دیا گیا، جس کے مطابق یہ معاملہ ستمبر 2004 میں ایک بار پھر روز پکڑتا ہے، کیس کی انکوائری دوبارہ نئے سرے سے شروع کی جاتی ہے تاہم اس بار بھی یہی تجویز کیا جاتا ہے کہ کیس کو بند کر دیا جائے تاہم چیئرمین کیس کو زیر التواء رکھنے کے احکامات دیتے ہیں۔”
دسمبر 2005 میں کیس کی تفتیش پر دوبارہ عملدرامد شروع کیا جاتا ہے اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اسحاق ڈار کے بیرون ملک اثاثوں کی چھان بین کی جائے گی تاہم ستمبر 2008 ء میں اسحاق ڈار کے ملکی اور غیرملکی اثاثوں کی چھان بین کے بعد جو رپورٹ پیش کی گئی اس میں بھی یہی کہا کہ کیس کو بند کر دیا جائے۔“
رپورٹ میں کہا گیا کہ ” اسحاق ڈار متوسط خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن انہوں نے بطور چارٹرڈ اکاونٹٹ خطیر رقم کمائی تاہم اہم بات یہ ہے کہ ان کے اثاثہ جات انکی آمدنی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اسحاق ڈار متحدہ عرب امارات کے شیخ آل نہیان کے مشیر خزانہ بھی رہے ہیں، اس دوران انکی آمدنی میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا۔“
اس بار بھی رپورٹ میں کیس کو بند کرنے کی تجویز سامنے آئی، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل اکاؤنٹیبلیٹی نے اسحاق ڈار کے 1985ء سے لیکر 1999ء تک آمدنی اور خرچ کا تخمینہ بھی رپورٹ میں شامل کیا جس کے مطابق اسحاق ڈار کی آمدنی اس دوران 60,765,785 روپے تھی جبکہ انکا اخراجات 22،356،837 روپے تھے۔
اس رپورٹ کی تجاویز کے باوجود کیس کو 2013 تک بغیر کسی نتیجے کے غیر فعال رکھا گیا۔ سابق وزیر خزانہ کے کیس کو نیب کی ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگز میں بھی زیر بحث نہیں لایا گیا۔ اس بار سیاسی شخصیات کے کیسز کے بارے میں موجود نیب کی پالیسی آڑے آئی۔
بعدازں نیب کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ موجود شواہد کی بنیاد پر تمام کیسز کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا، ایک اور انکوئری ہوئی کو 31 دسمبر 2015 کو مکمل ہوئی۔ معاملے کا ازسرنو جائزہ لینے کے بعد نیب لاہور نے 2015 میں تجویز دی کہ کوئی تازہ شواہد سامنے نہیں آئے، کیس کو بند کیا جائے اور پراسیکیوشن ڈویژن نے بھی نیب لاہور کی توثیق کی۔
اس کے بعد 21 اگست 2015 میں نیب کے قائم مقام چیئرمین نے خواہش ظاہر کی کہ، کیس کے متعلق ایک آخری کوشش بھی کر لی جائے۔ تجویز یہ تھی کہ ”کیس منطقی انجام تک پہنچانے سے قبل یو اے ای کی ایمبیسی سے اسحاق ڈار کی جائیدادوں اور رقم کی منتقلی سے متعلق معلومات حاصل کی جائیں۔“
تاہم 31 اگست کو نیب کے قائم مقام چیئرمین نے اس حوالے سے دوبارہ تجویز دی کہ ”تفتیش کے لیے یو اے ای سے رابطہ نہ کیا جائے کیونکہ اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا، بس اسحاق ڈار کا حتمی بیان ریکارڈ کیا جائے تاکہ کیس کا فیصلہ کیا جا سکے۔“
اپنے بیان میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ” میری یا میری بیگم کی ملک سے باہر کوئی پراپرٹی نہیں ہے اور نہ کوئی بینک اکاونٹ اور شیئرز ہیں۔ اپنے بیان میں اسحاق ڈار نے کہا کہ انکے دونوں بیٹے خودمختار ہیں اور انکا پاکستان میں کوئی کاروباری مفاد نہیں ہے۔“
انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ”میں نے اپنی بیرون ملک کمائی گئی آمدنی اور دیگر رقوم میں سے اپنے بیٹوں کو رقم گفٹ کی تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کر سکیں جس کا تمام تر ریکارڈ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور ٹیکس حکام کے پاس جمع ہے۔“
ایک بار پھر 14 اکتوبر 2015 میں نیب کی ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کیس کو دوبارہ چلایا جائے۔ فروری 2016ء میں نیب لاہور نے ایک رپورٹ میں کہا کہ اسحاق ڈار کے قاضی فیملی کے ساتھ کاروبار کے حوالے سے کوئی شواہد سامنے نہیں آ سکے ہیں۔“
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس بات کے بھی کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں کہ اسحاق ڈار کسی آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسحاق ڈار کے معاملے میں کوئی بے ضابطگی نہیں دیکھی گئی۔ دستاویزات کے مطابق نیب لاہور 23 جون 2015, 3 جولائی 2015, 10 جولائی 2015 اور 19 فروری 2016 میں لکھے گئے خطوط میں کہا کہ کیس میں نئے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں چنانچہ کیس کو بند کیا جائے۔
نیب لاہور کی رپورٹ کی آپریشن ڈویژن اور پراسیکیوشن ڈویژن نے بھی ثوثیق کی، جسکا ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ میں جائزہ لیا گیا۔
یوں ایک کیس کی انکوئری کو بند ہونے میں 16 سال کا عرصہ بیت گیا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اسے انتقامی کارروائی کے علاوہ دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔