پاکستانی میڈیا نے حسین حقانی کی انٹر پول کے ذریعے گرفتاری کی کوشش کے متعلق تین سال پرانی خبر پھر بریکنگ نیوز بنا دی

پاکستانی میڈیا نے حسین حقانی کی انٹر پول کے ذریعے گرفتاری کی کوشش کے متعلق تین سال پرانی خبر پھر بریکنگ نیوز بنا دی
پاکستانی میڈیا اس وقت ایک مضحکہ خیز صورتحال کا شکار  ہے۔ تمام ٹی وی چینلز اور انکی ویب سائٹس پر حسین حقانی کو انٹر پول کے ذریعئے واپس لانے کے حوالے سے خبر بطور بریکنگ نیوز چلائی جا رہی ہے۔ تاہم اگر غور کیا جائے تو یہ خبر اور اس کے ساتھ دکھائے جانے والی دستاویز دراصل 2018 کی ہے۔ جسے دوبارہ سے بریکنگ کہہ کر چلایا جا رہا ہے۔

خبر کیا ہے؟

خبر کے مطابق امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کو ملک واپس لانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ذرائع کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے انٹر پول کو حسین حقانی کی حوالگی کیلئے خط لکھا ہے۔ خط کے متن کے مطابق حسین حقانی کے خلاف 2018 میں اختیارات کے ناجائز استعمال،  اور قومی خزانے سے 2 ملین ڈالرز کی خورد برد اور دھوکا دہی کا مقدمہ درج ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ملزم حسین حقانی عدالتی مفرور ہیں اور ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے لہٰذا انٹر پول حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ جاری کرے۔

حسین حقانی کا ردعمل

حسین حقانی نے مضحکہ خیز صورتحال پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‏بعض خبریں دو تین سال کے وقفے سے چلائی جاتی رہتی ہیں۔ دیسی صحافت کا حال اتنا بُرا ہے کہ کوئی یہ بھی نہیں دیکھتا کہ یہی خبر 2018 میں چلائی جا چُکی۔ اگر اُس وقت چیف جسٹس ثاقب نثار کے خط پر انٹرپول نے ایکشن نہیں لیا تو کیا اس دفعہ مُلا برادر سے خط لکھوانے کا ارادہ ہے؟

https://twitter.com/husainhaqqani/status/1430566138350538758?s=19

انٹرپول کی کارروائی کی صورتحال

یاد رہے کہ یہ خبر سنہ 2018 میں عدالت عظمی' کے سو موٹو نوٹس کے بعد چلائی گئیں۔ جس کے بعد انٹرپول نے اس پر عمل درآمد سے واشگاف الفاظ میں معذوری کا اظہار کیا تھا۔

 

حسین حقانی کون ہیں

حسین حقانی 2008ء سے 2011ء تک امریکا میں پاکستان کا سفیر رہے۔ یوسف رضا گیلانی حکومت میں وہ امریکہ میں پاکستانی سفیر مقرر ہوئے ۔ انکے نواز شریف اور بے نظیر کے ساتھ بی تعلقات رہے۔ سیاسی کردار کا آغاز اسلامی جمیعت طلبہ جامع کراچی کے صدر کے طور پر کیا۔ بعد میں صحافت سے وابستہ رہے۔ حسین حقانی امریکی جامعہ میں پڑھاتے بھی رہے۔ 2011 میں ان پر پاکستان کے فوجی سربراہان کے خلاف صدر آصف علی زرداری کی طرف سے امریکی ایڈمرل مائک ملن سے مدد مانگنے کا پیغام بھیجنے کا الزام لگا جس پر ان سے استعفی لے لیا گیا۔ اس سکینڈل میمو گیٹ سکینڈل کہتے ہیں۔