مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے صدر مملکت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ سے 2 مرتبہ آئین شکنی کے مرتکب قرار دیے جانے کے بعد صدر عارف علوی کو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہیے۔
اسحاق ڈار نے نجی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکی نہ دیتے تو ن لیگ مئی 2022 میں اسمبلی تحلیل کر دیتی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی دھمکی کے بعد نوازشریف نے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ تبدیل کیا۔
سینیئر ن لیگی رہنما نے کہا کہ حلقہ بندی کے کام میں الیکشن کمیشن نے وقت کی بچت کی ہے۔ حلقہ بندیوں کی وجہ سے خدشہ تھا کہ الیکشن فروری کے آخر میں ہوں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 16 مہینے معیشت کی بہتری کیلئے نہیں تھے۔ نوازشریف کیلئے مشکل فیصلہ تھا کہ 16 مہینے کی حکومت لیں یا نہ لیں۔ اگر 16 مہینے کی حکومت نہیں لیتے تو پاکستان ڈیفالٹ ہوجاتا۔ کچھ بین الاقوامی قوتیں بھی چاہتی تھیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے۔
اسحاق ڈارکا کہنا تھا کہ پاکستان کو سری لنکا بننے سے بچانے اور ڈیفالٹ سے بچانے کا معاملہ تھا۔ کسی نے اتنا ترقیاتی کام نہیں کیا جتنا مسلم لیگ ن نے کیا۔
عام انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد اور ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملکی سطح پر تو نہیں البتہ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے۔ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی لیول پلئنگ فیلڈ نہ ہونے کی بات کرکے صرف انتخابی کھیل کھیل رہی ہیں۔ ہمیں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ اور شفاف الیکشن چاہئیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی پی بلاول کو وزیراعظم بناناچاہتی ہے تو خواہشات پر کوئی پابندی نہیں لیکن اگر ن لیگ نے انتخابات جیتے تو نوازشریف وزیراعظم ہوں گے۔
پارٹی کے ناراض رہنماؤں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے ایک سینیئر ساتھی نے شاہد خاقان سے بات کی تھی۔ وہ نہیں آئے۔ انہیں آنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار سے نوازشریف کا دہائیوں کا تعلق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ملٹری لیڈر شپ انتہائی ایماندار اور قابل ہے۔ نواز شریف کا فوج سے اختلاف نہیں ہوگا۔