Get Alerts

عمر شریف کی وفات پر الطاف حسین کی برائیاں، محمد حنیف کو رجوع کرنا چاہیے

عمر شریف کی وفات پر الطاف حسین کی برائیاں، محمد حنیف کو رجوع کرنا چاہیے
قبلہ جناب محمد حنیف مشہور ومعروف صحافی ہیں، دنیا کے جانے مانے ناول نگار ہیں، استاد ہیں اور سب سے بڑھ کر پاکستان میں انسانی حقوق کے داعی سمجھے جاتے ہیں۔

میں ان کا کالم باقاعدگی سے پڑھتا ہوں، ان کے ناول کا اور ان کی حق گوئی کا مداح ہوں، ان کا حالیہ کالم کا عنوان یہ تاثر دیتا محسوس ہوا جیسے انہوں نے عمر شریف کے انتقال پر کوئی تعزیتی ٹریبیوٹ دینے کی ٹھانی ہے۔

عمر شریف سے ہم کراچی والوں کی ایک خاص محبت ہے۔ یہ وہی محبت ہے جو ہمیں امجد صابری سے تھی، جو راشد لطیف سے ہے۔ یہ بات زبان زد عام ہے کے یہ تمام احباب اعلانیہ الطاف حسین کے ووٹر سپورٹر تھے۔ کروڑوں دوسرے کراچی والوں کی طرح، مجھ سمیت مجھے افسوس ہوا کے محمد حنیف کے رتبے کے صحافی نے مرحوم عمر شریف کے مردہ کندھوں کا سہارا لیا، الطاف حسین صاحب پر تبرا پڑھنے کے لئے، اس کا کوئی موقع محل بھی مجھ ناسمجھ کی گرفت میں تو نہ آ سکا۔

حنیف صاحب عموماً نہایت مناسب بات کرتے ہیں، اس لئے حیرانگی ہوئی کہ انہوں نے عمر شریف کے لاہور جانے سے متعلق عجیب بے سروپا بات کی جس کا نہ کوئی سر تھا نہ پیر۔

حضرت یہ تاثر دیتے ہیں کے عمر شریف الطاف حسین صاحب کے ڈر کی وجہ سے لاہور منتقل ہوئے جبکہ سامنے کی بات ہے کہ عمر بھائی لولی ووڈ لاہور میں ہونے کی وجہ سے لاہور گئے تھے، ایک تھوڑے عرصے کے لئے، وہ واپس کراچی آئے بھی اور اس کے بعد الطاف حسین صاحب نے ان کو عزت دی اور ان کو کابینہ میں شامل کروایا جس کا وہ ہمیشہ تذکرہ کرتے تھے اور مرتے دم تک، خلوت میں، جلوت میں الطاف بھائی کے احسان مند رہتے تھے۔

ان کے لواحقین موجود ہیں، وہ اس بات کی تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں۔ حنیف صاحب کو تو شاید نہ پتا ہو مگر جن صاحب نے امریکا میں عمر بھائی اور ان کے صاحبزادے کی رہنمائی اور میزبانی کرنی تھی، وہ ان کے پرانے ممدوح اور الطاف صاحب کی پارٹی کے ابھی بھی لوکل ذمہ دار ہیں۔

یہ سہولت یقیناً الطاف بھائی کی تلقین کے بغیر ممکن نہ ہو پاتی اور یقیناً یہ کوئی احسان عمر بھائی پر نہ ہوتا کیونکہ وہ پارٹی کے، الطاف بھائی کے جانے مانے ووٹر اور سپورٹر تھے۔ یہاں تک کہ جیسے عرض کی کہ الطاف بھائی نے ان کو کابینہ کا حصہ تک بنوایا۔

سوال یہ ہے کہ محمد حنیف صاحب نے اس سانحے کا انتخاب کیوں فرمایا، بجائے اس کے کہ عمر شریف کو خراج تحسین پیش کرتے، الطاف حسین صاحب پر نزلہ گرا دیا، بالکل ناجائز اور بے سروپا۔

ماضی میں الطاف حسین صاحب کی پارٹی خصوصاً جب مشرف دور میں اقتدار میں تھی تو اس کا رویہ صحافی برادری سے تحکمانہ بھی رہا ہوگا، یقیناً غلطیاں ہوئی ہوں گی اور ان کا ازالہ اور اس پر رجوع ہونا چاہیے، مگر جس طرح ماورائے آئین وقانون الطاف حسین صاحب کی جماعت کو سیاست سے بزور بندوق باہر کیا گیا  اور جو تذلیل شہری سندھ کے ووٹر کی ہوئی اس زبردستی سے، اس کا اثر آپ کو نظر آئے گا اور جلد۔

میری نہ مانیں، وجاہت مسعود یقیناً الطاف حسین کے کارکن نہیں ہیں، بقول استاذی جس دن بندوق کا جبر ختم ہوا، اآپ کو لگ پتا جائے گا کہ شہری سندھ کا آج بھی بادشاہ کون ہے؟ آپ ضرور الطاف حسین سے نفرت کریں، آپ آزاد ہیں، یہ آپ کا حق ہے مگر یاد رکھیں جبر، زور اور زبردستی سے نہ آپ الطاف حسین کو 78 میں ختم نہ کر پائے، نہ 92 میں اور نہ 97 میں۔ پھر کوشش کر لی آپ نے 2016 میں، حاصل جمع سفر ہے اور جو شک ہے تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟

مجھے علم ہے کہ محمد حنیف، ندیم پراچہ، متعدد لکھاریوں، صحافیوں اور مدیران کا بھٹو شہید اور ان کی پارٹی سے رومانس ہے۔ خصوصاً شہری سندھ میں اس پارٹی کی جو کارکردگی ہے، وہ ان احباب کے جذبات برانگیختہ کر دیتی ہوگی، مگر حضور عرض یہ ہے کہ ایک تو زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھیں اور دوسرا خدارا، کم از کم موت پر تو یہ حرکتیں نہ کریں۔ محمد حنیف کا ادبی حلقوں میں جو مقام ہے، اس حرکت سے شاید اس میں چار چاند نہ لگیں، ان کو رجوع کرنا چاہیے۔

نوٹ: اس کالم میں پیش کیے گئے خیالات مصنف کے اپنے ہیں، ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔