کیا آپ جانتے ہیں 'تھائی پٹھان' کون ہیں؟

کیا آپ جانتے ہیں 'تھائی پٹھان' کون ہیں؟
 

تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک تاریخی قصبہ ایوتھیا واقع ہے۔ یہ قصبہ صدیوں سے بدھ مت تہذیب کا مرکز اور اور عظیم الشان مندروں کا مسکن رہا۔ اس قصبے کی خاص بات یہ ہے یہاں سینکڑوں پختون خاندان آباد ہیں جو ہیں تو تھائی باشندے لیکن ان کی جڑیں پاکستان کیساتھ منسلک ہیں۔

روایات کے مطابق پاکستانی پختونوں کی پہلی نسل کی تھائی لینڈ آمد پہلی جنگ عظیم کے قریب ہوئی، بہت سے پٹھان برطانوی فوج میں شامل ہونے کی وجہ سے پہلی جنگ عظیم کے موقع پر اس وقت کے ملک سیام گئے اور واپس نہیں لوٹے اور کئی دوسرے کاروبار اور روزگار کی خاطر برطانوی ہندوستان کے مشرقی شہروں سے ہوتے ہوئے برما کے ذریعے تھائی لینڈ پہنچ گئے۔

اردو نیوز کے مطابق تھائی لینڈ میں موجود پٹھانوں نے اپنی برادری کی بہتری کیلئے تقریباً 40 سال قبل تھائی پاکستان فرینڈشپ ایسوسی ایشن قائم کی لیکن اس میں تھائی پٹھانوں کی اکثریت کے باعث اس تنظیم کو تھائی پٹھان ایسوسی ایشن کہا جانے لگا

اس ایسوسی ایشن کے صدر عمر خان ایوب خیلی کا خیال ہے کہ پٹھانوں کا اس وقت کے سیام یا تھائی لینڈ میں آباد ہونا کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں کیونکہ اس وقت یہ پورا علاقہ بشمول موجودہ پاکستان انگریزوں کے کنٹرول میں تھا۔ اس زمانے میں سیام جس کا نام بعد میں تھائی لینڈ رکھ دیا گیا میں گوشت کی فراوانی نہیں تھی اور مقامی باشندے جانوروں کو ذبیح کرنے کے عمل کو پیچیدہ تصور کرتے تھے یا یوں کہہ لیں کہ انھیں جانوروں کو ذبیح کرنا مشکل لگتا تھا۔

جب وہاں پہنچنے والے اولین پٹھانوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ناصرف یہ کہ اپنے سلاٹر ہائوس کھولے بلکہ جانوروںکی افزائش کیلئے بڑے بڑے فارم بھی کھول لئے اور ان کے چارے کا بندوسبت کرنے کیلئے زمینیں بھی خرید لیں۔

جب ان کا کاروبار پھیلنا شروع ہوا تو اسے سنبھالنے کیلئے انھیں افرادی قوت کی کمی محسوس ہوئی، اس لئے اس کو پورا کرنے کیلئے انہوں نے پاکستان سے اپنے بھائیوں، بھتیجوں اور دیگر رشتہ داروں کو وہاں بلانا شروع کر دیا، یوں دیکھتے ہی دیکھتے پختون پورے تھائی لینڈ میں پھیل گئے۔

ان پختونوں نے وہاں کی تھائی لڑکیوں سے بھی شادیاں کیں اور یوں تھائی پٹھانوں کا کنبہ بڑھتا ہی چلا گیا جس میں آج بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اکثر تھائی پٹھان اپنے بیٹوں کی تعلیم کیلئے پاکستان میں قائم مدرسوں کا انتخاب کرتے ہیں اور وہ وہاں اپنے رشتہ داروں سے شادیاں کرکے واپس تھائی لینڈ آتے ہیں جبکہ تھائی پختون لڑکیوں کی اکثریت کی شادی ان کے تھائی یا پاکستانی کزنز کیساتھ ہی ہوتی ہے۔

تھائی پٹھانوں کی موجودہ آبادی کے بارے میں مختلف اعدادوشمار ہیں چونکہ وہ اب اس ملک کے مقامی رنگ میں مکمل طور پر رنگ چکے ہیں لہذا ان کی اصل تعداد کے بارے میں 100 فیصد اندازہ لگانا تو ممکن نہیں ہے تاہم تھائی پٹھان ایسوسی ایشن کے مطابق ان کی تعداد 5 لاکھ کے قریب ہے جبکہ پاکستانی سفارتخانے کے مطابق قریباً ڈھائی لاکھ ہے۔

کچھ روایات کے مطابق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انگریز حکمرانوں نے پٹھانوں کی دلیری کو دیکھتے ہوئے انھیں مقامی مزاحمتی تھائی گروپوں کو ختم کرنے کیلئے بھی استعمال کیا تھا اور انھیں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کیلئے ہر طرح کی کھلی چھوٹ دی گئی، ان سارے عوامل نے انھیں تھائی لینڈ میں ایک مافیا کی پہچان بھی دیدی جس کے بعد انھیں اس ملک میں قدم جمانے کیلئے مزید آسانی پیدا ہو گئی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب تھائی لینڈ میں سب پٹھانوں کے بڑے خان کی رسائی سربراہ مملکت تک ہو گئی، وہ جب چاہتے فون گھماتے اور کسی بھی حکومتی رکن سے ملنے چلے جاتے۔

کہا جاتا ہے کہ جب بھائی خان کا قافلہ بنکاک کی سڑکوں سے گزرتا تھا تو لوگ کھڑے ہو کر ان کی گاڑیاں دیکھتے اور ان کی دہشت کا مشاہدہ کرتے، بھائی خان آج بھی تھائی لینڈ کا ایک طلسماتی کردار ہے۔