فرقہ وارانہ دہشتگردی کے دو سو سال

فرقہ وارانہ دہشتگردی کے دو سو سال
برصغیر میں عوامی سطح پر فرقہ وارانہ تصادم کا آغاز 1820 میں ہوا، اور محرم 2020 میں اس سلسلے کو جاری ہوئے دو سو سال پورے ہو چکے ہیں۔

برصغیر میں اسلام حضرت علی کے دور میں ہی آ چکا تھا اور ابتدائی مسلمانوں میں شیعہ بھی شامل تھے۔ لیکن یہاں شیعہ قتل کے واقعات بہت کم ہوتے تھے۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہاں اس قسم کا پہلا واقعہ عباسی خلیفہ منصور دوانیقی کے لشکر کے ہاتھوں امام حسنؑ کے پڑ پوتے حضرت عبد اللہ شاہ غازیؑ اور ان کے چار سو ساتھیوں کا قتل ہے جو تاریخ طبری کے مطابق 768، یعنی 151 ہجری، میں پیش آیا۔ اس نوعیت کا دوسرا واقعہ 1005 میں محمود غزنوی کے ہاتھوں ملتان میں خلافتِ فاطمیہ سے منسلک اسماعیلی شیعہ سلطنت کے خاتمے اور شیعہ مساجد اور آبادی کی تباہی کاملتا ہے۔ اس کے تین سو سال بعد سلطان فیروز شاہ تغلق کے زمانے (1351 سے 1388) میں دہلی میں اہل تشیع کی کتب جلائی گئیں، ان کو رسوا کر کے شہر میں گھمایا گیا اور ان کے علما کو قتل کیا گیا۔

مغلیہ سلطنت مذہبی ہم آہنگی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھی۔ اگرچہ اس دور میں شیخ احمد سرہندی نے ردِ روافض کے عنوان سے ایک کتاب لکھی لیکن حکومت نے شیعہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ذمہ داری کو نبھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ 1588 میں جب شیعہ عالم ملا احمد ٹھٹھویؒ کو لاہور میں قتل کیا گیا تو شہنشاہ اکبر نے ان کے قاتل مرزا فولاد کو گرفتار کر کے سزائے موت دی۔ اگرچہ 1610 میں جہانگیر کے دور میں ضعیف شیعہ مجتہد قاضی نور الله شوشتری کو کوڑے مارے گئے جس کے نتیجے میں ان کا انتقال ہو گیا، لیکن اس کی وجہ مسلکی سے زیادہ سیاسی تھی، جہانگیر اپنے باپ سے نالاں تھا۔ اکبر جہانگیر کی کثرت شراب نوشی کی وجہ سے اس کے بجائے اپنے پوتے کو شہنشاہ بنانا چاہتا تھا۔ جہانگیر نے شہزادہ خسرو کو اندھا کر کے اقتدار حاصل کیا تو اکبر کے دربار کے اہل علم و فضل زیرِ عتاب آ گئے اور یوں قاضی نور الله شوشتری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

اکبر کے بعد جہانگیر اور شاہ جہاں بھی صلحِ کل پر کاربند رہے۔ چنانچہ جب شیخ احمد سرہندی نے ہندوؤں کے خلاف مہم شروع کی تو انہیں ایک سال کے لئے جیل میں ڈال دیا گیا۔

مغلیہ دور میں شیعہ مخالف قتل عام اورنگزیب کے دکن میں حملے کے دوران ہوا۔ اورنگزیب ایک کٹر مذہبی عالم تھا اور اس نے 1680 میں دکن میں شیعہ حکومتوں کا خاتمہ کر کے وہاں کے علمی مراکز کو تباہ کیا اور عزاداری پر پابندی لگائی۔ بوہری شیعوں کے داعی مطلق سیدنا قطب الدین کو شہید کرایا۔

قرون وسطیٰ میں مسلکی بنیادوں پر تشدد کے واقعات میں تین چیزیں نمایاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان واقعات میں عوام کے اندر سے کوئی جتھہ شریک نہیں ہوا بلکہ یہ شاہی فوج کے ہاتھوں انجام پائے۔ دوسرا ان واقعات میں سینکڑوں سال کا زمانی فاصلہ ہے۔ اور تیسری چیز جو ان واقعات کو 1820 کے بعد سے شروع ہونے والی فرقہ واریت سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے واقعات کسی ایک علاقے تک محدود رہتے تھے۔

قرون وسطیٰ میں شیعہ اور سنی مل کر محرم مناتے تھے۔ البتہ اٹھارویں صدی عیسوی میں دہلی میں روہیلہ سرداروں کی خوشنودی کے لئے شاہ ولی الله اور ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز دہلوی نے اس مذہبی ہم آہنگی کے خلاف کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ شاہ عبدالعزیز نے شیعہ مسلک کے خلاف تحفہ اثنا عشریہ لکھی جس کا جواب لکھنؤ کے شیعہ عالم آیت الله دلدار علی نقوی نے دیا اور شیعہ و سنی میں سماجی دیواریں بلند ہونے لگیں۔ اپنے ایک خط میں شاہ عبد العزیز سنیوں کو شیعوں سے شادی کرنے، سلام میں پہل کرنے اور ان کا پکایا ہوا کھانے سے منع کرتے ہیں۔ لیکن وہ بھی اپنے گھر میں بی بی فاطمہ کی نیاز دلاتے تھے اور انہوں نے ذکر کربلا کے حق میں ایک کتاب بعنوان ’سر الشہادتین‘ لکھی۔

انیسویں صدی عیسوی کا آغاز فرقہ وارانہ دہشتگردی سے ہوا۔ 1802 میں نجد کے وہابی لشکر نے کربلا اور نجف پر حملہ کیا اور وہاں آئمہؑ کے مزارات کی تخریب اور لوٹ مار کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار شیعہ مسلمان قتل کیے۔ 1804 میں اس لشکر نے مدینہ پر بھی حملہ کیا اور روضۂ رسولؐ کی توہین کی۔ اس سانحے نے برصغیر میں شاہ ولی الله کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی حوصلہ افزائی کی۔ ان لوگوں نے 1818 سے 1820 کے سالوں میں اودھ، بہار اور بنگال میں سینکڑوں امام بارگاہوں پر حملے کیے۔ پروفیسر باربرا مٹکاف اپنی کتاب ’اسلامک روائیول ان برٹش انڈیا‘ کے صفحہ 58 پر لکھتی ہیں:

’’دوسری قسم کے امور جن سے سید احمد بریلوی شدید پرخاش رکھتے تھے، وہ تھے جو تشیع سے پھوٹتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تعزیے بنانے سے خاص طور پر منع کیا، جو شہدائے کربلا کے مزارات کی شبیہ تھے جن کو محرم کے جلوسوں میں اٹھایا جاتا تھا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے لکھا: ’ایک سچے مومن کو طاقت کے استعمال کے ذریعے تعزیہ توڑنے کے عمل کو بت توڑنے کے برابر سمجھنا چاہیے۔ اگر وہ خود نہ توڑ سکے تو اسے چاہیے کہ وہ دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین کرے۔ اگر یہ بھی اس کے بس میں نہ ہو تو اسے کم از کم دل میں تعزیے سے نفرت کرنی چاہیے‘۔ سید احمد بریلوی کے سوانح نگاروں نے، بلا شبہ تعداد کے معاملے میں مبالغہ آرائی کرتے ہوئے، سید احمد بریلوی کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں تعزیے توڑنے اور امام بارگاہوں کے جلائے جانے کا ذکر کیا ہے‘‘۔

1826 میں یہ لوگ پختون علاقوں میں طالبانی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ کوئی ایسی ریاست نہیں تھی جو انسانی سرمائے کو استحکام اور آزادی کی فضا مہیا کر کے عوام کی زندگی میں بہتری لاتی، غربت اور بیماریوں کا خاتمہ کرتی۔ اس زمانے میں مغرب میں صنعتی اور طبی انقلاب کا آغاز ہو چکا تھا جس نے آگے چل کر دنیا بھر کی منڈیوں پر قبضہ جمایا، ادھر مسلمان معاشرے کو ایسی فرقہ وارانہ تحریکوں نے آ لیا تھا۔ پشتون علاقوں میں انہوں نے فقہ حنفی کو وہابی عقائد کے ساتھ ملا کر نافذ کیا۔ پختون تہذیب پر حملے کرنے کے ساتھ ساتھ یہ حکم دیا کہ کوئی بالغ لڑکی شادی کے بغیر نہیں ہونی چاہیے۔ سید احمد کے کارندے باجماعت نماز میں شریک نہ ہو سکنے والے شخص کو کوڑے لگاتے۔ انہوں نے بنگال و بہار سے لائے گئے ’مجاہدین‘ کی مقامی لڑکیوں سے زبردستی شادیاں کیں۔ پختون علاقوں میں عوام آہستہ آہستہ ان کے خلاف ہو گئے تو شاہ اسماعیل دہلوی نے کہا:

’’آن جناب ( سید احمد بریلوی) کی اطاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہوگئی ہے۔ جس کسی نے آں جناب کی امامت قبول کرنے سے انکار کیا تو وہ باغی ہے، اس کا خون حلال ہے اور اس کا قتل کفار کے قتل کی طرح عین جہاد ہے اور اس کی ہلاکت تمام اہل فساد کی ہلاکت کہ یہی اللہ کی مرضی ہے۔ چوں کہ ایسے اشخاص کی مثال حدیثِ متواترہ کی رو سے جہنم کے کتوں اور ملعون شریروں جیسی ہے۔ یہ اس ضعیف کا مذھب ہے، پس اس ضعیف کے نزدیک اعتراض کرنے والوں کے اعتراض کا جواب تلوار کی ضرب ہے‘‘۔

تعجب کی بات نہیں کہ آج طالبان اور داعش کے تکفیری دہشتگرد ان کے افکار سے مکمل مماثلت رکھتے ہیں۔ پشاور کے روایتی سنی علما نے ان کے خلاف فتوے جاری کیے۔ آخر کار 1831 میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل کو حالت فرار میں بالاکوٹ کے مقام پر سکھوں نے مقامی پختونوں کی مدد سے قتل کیا۔

سید احمد بریلوی اگرچہ قتل ہو چکے تھے لیکن فرقہ واریت کی آگ دہک رہی تھی۔ ایسے تنازعات پر ’دہلی اردو اخبار‘، 22 مارچ 1840، کی رپورٹ ملاحظہ کریں:

’’سنا گیا کہ عشرۂ محرم میں باوجود اس کے کہ ہولی کے دن بھی تھے اس پر بھی بسبب حسن انتظام صاحب جنٹ مجسٹریٹ اور ضلع مجسٹریٹ کے بہت امن رہا۔ کچھ دنگا فساد نہیں ہوا۔ صرف ایک جگہ مسمات امیر بہو بیگم بیوہ شمس الدین خان کے گھر میں، جو شیعہ مذہب ہے اور وہاں تعزیہ داری ہوتی ہے، کچھ ایک سنی مذہبوں نے ارادہ فساد کیا تھا لیکن کچھ زبانی تنازع ہوئی تھی کہ صاحب جنٹ مجسٹریٹ کے کان تک یہ خبر پہونچی۔ کہتے ہیں کہ صاحب ممدوح جو رات کو گشت کو اٹھے تو خود وہاں کے تھانہ میں جا کے داروغہ کو بہت تاکید کی اور کچھ اہالیان پولس تعین کیے کہ کوئی خلاف اس کے گھرمیں نہ جانے پاوے۔ سو خوب انتظام ہو گیا اور پھر کہیں کچھ لفظ بھی نزاع کا نہ سنا گیا‘‘۔

اس زمانے میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے پیروکاروں کےلئے ’وہابی‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا، بعد میں یہ مکتب فکر دیوبندی اور اہلحدیث میں تقسیم ہو گیا۔ انگریز دورمیں مرتب کردہ کچھ گزیٹئرز موجودہ پاکستان کے علاقوں میں وہابیوں کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔ درج ذیل جدول میں ان گزیٹئرز میں موجود اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔




































انگریز دور کی مردم شماری کے مطابق مسلمان آبادی میں وہابیوں کا تناسب
سال ضلع وہابیوں کی تعداد گزیٹئر کے صفحے کا حوالہ
98–1897 پشاور 0.01% صفحہ 110
84 –1883 شاہ پور 0.07% صفحہ 40
84 –1883 جھنگ 0.02% صفحہ 50
94 – 1893 لاہور 0.03% صفحہ 94

جہاں یہ اعداد و شمار سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے افکار کی اس زمانے میں قبولیت کا پتا دیتے ہیں، وہیں ان میں بتائی گئی تعداد اصل تعداد سے کم ہے کیوں کہ اس زمانے میں وہابی کہلائے جانے والے لوگ انفرادی زندگی میں اپنے مسلک کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔ وہابیوں میں اس رجحان کی طرف لاہور کے گزیٹئرمیں اشارہ کیا گیا ہے:

”وہابیوں کی گنتی ان کی اصلی تعداد سے بہت کم ہے؛ شاید اکثر وہابی مسلمانوں نے اپنی وہابی شناخت کو ظاہر کرنا محفوظ نہ سمجھا“۔

مولوی نور احمد چشتی نے اپنی کتاب ’یادگار چشتی‘ مطبوعہ 1859 میں لکھا ہے کہ:

’’اہلِ اسلام میں اب ایک اور فرقہ نکلا ہے اور اس کو وہابیہ فرقہ کہتے ہیں۔ اس زمانے میں دیکھتا ہوں کہ اکثر عالم لوگ اس طرف متوجہ ہیں۔ العیاذ باللہ! خدا ان کے عقائد کو درست کرے‘‘[صفحہ 152]۔

اس کتاب کے مندرجہ ذیل اقتباسات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کی شہری مڈل کلاس میں سید احمد بریلوی کے پیروکار پیدا ہو چکے تھے اور وہ عزاداری پر حملے کرنے لگ گئے تھے:

’’اور ہر بازار میں لوگ واسطے دیکھنے کے جمع ہوتے ہیں۔ ہر طرف سے گلاب کا عرق اس (ذوالجناح) پر چھڑکا جاتا ہے مگر بعض تعصب سے اس کو ہنسی کرتے ہیں۔ بعض لوگ ان کو ”مدد چار یار“ کہتے ہیں اور اکثر اس پر کشت و خون ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ جب میجر کر کر صاحب بہادر لاہور میں ڈپٹی کمشنر تھے، تب سنی شیعہ میں بہت فساد ہوا اور بہت لوگ مجروح ہوئے۔ تب سے اب ہمیشہ شہر لاہور میں ڈپٹی کمشنر صاحب اور کوتوال اور تحصیل دار اور سب تھانے دار لوگ اور ایک دو کمپنی پلٹن کی اور ایک ملٹری صاحب اور ایک رسالہ، شیعہ لوگوں کی محافظت کے واسطے گھوڑے کے ساتھ ہوتا ہے تا کہ کوئی سنی دست درازی نہ کر سکے۔ مگر تو بھی وہ لوگ باز نہیں آتے“[صفحہ 237]۔

کنہیا لال نے اپنی کتاب ”تاریخ لاہور“، مطبوعہ وکٹوریہ پریس لاہور، 1884، میں لکھا ہے:

”1849 میں اس مکان (کربلا گامے شاہ) پر سخت صدمہ آیا تھا کہ 10 محرم کے روز جب ذوالجناح نکلا تو رستہ میں، متصل شاہ عالمی دروازے کے، مابین قوم شیعہ و اہل سنت کے سخت تکرار ہوئی۔ اور نوبت بزد و کوب پہنچی۔ قوم اہلسنت نے اس روز چاردیواری کے اندرونی مکانات گرا دیئے۔ مقبرہ کے کنگورے وغیرہ گرا دیئے۔ چاہ کو اینٹوں سے بھر دیا۔ گامے شاہ کو ایسا مارا کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ آخر ایڈورڈ صاحب دپٹی کمشنر نے چھاونی انارکلی سے سواروں کا دستہ طلب کیا تو اس سے لوگ منتشر ہو گئے۔ اور جتنے گرفتار ہوئے ان کو کچھ کچھ سزا بھی ہوئی“[صفحہ 305]۔

فرقہ وارانہ دہشتگردی کا یہ سلسلہ بیسویں صدی میں بڑھتا چلا گیا۔ 1940 میں ہی بات بم دھماکوں تک پہنچ چکی تھی۔ نارمن ہولسٹر اپنی کتاب ’دی شیعہ آف انڈیا‘ کے صفحہ 178 میں لکھتے ہیں:

’’محرم میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان جھگڑے معمول بن چکے ہیں۔ شہروں میں پولیس کو جلوس کے ساتھ جانا پڑتا ہے، جلوس بھی مخصوص راستوں سے ہی گزر سکتا ہے۔ ایک اخبار میں چھپنے والے یہ جملے معاملے کی سنگینی کا احساس دلاتے ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ اگر حکومت حالات کو کنٹرول میں نہ رکھے تو کیا کچھ ہو سکتا ہے:

’مناسب اقدامات نے نا خوشگوار واقعات کو ہونے سے پہلے روک لیا‘، ’محرم پر امن طریقے سے گزرا‘، ’سب دکانیں بند رہیں تاکہ امن برقرار رہے‘، ’الہٰ آباد سے بیس کلو میٹر دور متعدد خواتین نے جلوسِ عزا کے سامنے ڈیرہ ڈال دیا، وہ اپنے علاقے سے جلوس گزرنے پر احتجاج کر رہی تھیں‘، ’امن دشمنوں کی طرف سے متوقع فساد کو روکنے کے لئے پولیس نے مناسب اقدامات کیے‘، ’مہندی کے جلوس پرپولیس کا لاٹھی چارج، مسلمان محرم نہ منا سکے، تعزیہ کا جلوس برآمد نہ ہو سکا، ہندو اکثریت والے علاقوں میں کاروبار جاری رہا‘، ’جلوسِ عزا پر بم حملہ‘۔

اگرچہ اس قسم کے سب واقعات کی وجہ فرقہ وارانہ تعصب نہیں، لیکن اکثر واقعات کے پیچھے فرقہ واریت ہی ہے۔ برڈ ووڈ کے بقول بمبئی میں، جہاں ماہ محرم کے پہلے چار دن مختلف گروہ دوسروں کے تابوت خانوں میں جا کر سلام کرتے ہیں، خواتین اور بچوں سمیت لوگ وہاں جاتے ہیں، لیکن پولیس نے ہدایت کی ہے کہ سنیوں کو نہ آنے دیا جائے تاکہ کوئی دہشتگردی کا واقعہ نہ ہو جائے‘‘۔

تحریکِ پاکستان کے دوران مسلکی فتنہ انگیزی کے ساتھ ساتھ کانگریس کے اتحادی علما کی طرف سے جناح کے مسلک کو بنیاد بنا کر ان کو سیاسی قیادت کے لئے نااہل ثابت کرنے کی کوشش ہوتی تھی۔ لیکن یہ علما اپنے کمزور سیاسی پروگرام اور تحریک خلافت میں ہونے والی حماقتوں کی تاریخ کی وجہ سے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ مسلم لیگ مسلمان عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ شیعہ سنی فساد بھڑکانے سے کانگریس کا مقصد مسلمانوں کے آئینی حقوق کے معاملے کو پس پشت ڈالنا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے دوران آزادی کی تحریک نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تو شیعہ مخالف تشدد میں کافی کمی آ گئی لیکن 1944 میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں ’تنظیم اہل سنت‘ کے نام سے ایک شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد لکھنو کے شیعہ سنی فسادات کے معمار مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور شہر بہ شہر فسادات بھڑکائے۔ ان میں مولانا نورالحسن بخاری، مولانا عبدالستار تونسوی، مولانا سرفراز گکھڑوی، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا عبد الحق حقانی اور مولانا مفتی محمود وغیرہ ملوث تھے۔

ڈاکٹر انڈریاس ریک کی کتاب ’دی شیعاز آف پاکستان‘ کے مطابق 1949 میں چوٹی زیریں اور 1950 میں نارووال میں عزاداری پر حملے ہوئے۔ 1951 میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں شیعہ امیدواروں کے خلاف فرقہ وارانہ بنیادوں پر مہم چلائی گئی اور انھیں کافر قرار دیا گیا۔ 1955 میں پنجاب میں پچیس مقامات پر عزاداری کے جلوسوں اور امام بارگاہوں پر حملے کیے گئے جن میں سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ اسی سال کراچی میں ایک مولانا صاحب نے افواہ اڑائی کہ شیعہ ہر سال ایک سنی بچہ ذبح کر کے نیاز پکاتے ہیں، اس افواہ کے زیر اثر کراچی میں ایک بلتی امام بارگاہ پر حملہ ہوا اور بارہ افراد شدید زخمی ہو گئے۔ 1957 میں ملتان کے ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں سیت پور میں محرم کے جلوس پر حملہ کر کے تین عزاداروں کو قتل کر دیا گیا۔ حکومت کی طرف سے عدالتی کمیشن قائم کیا گیا اور اس واردات میں ملوث پانچ دہشت گردوں کو سزائے موت دی گئی۔ اسی سال احمد پور شرقی میں عزاداری کے جلوس پر پتھراؤ کے نتیجے میں ایک شخص جان بحق اور تین شدید زخمی ہوئے۔ جون 1958 میں بھکر میں ایک شیعہ خطیب آغا محسنؒ کو قتل کر دیا گیا۔ قاتل نے اعترافی بیان میں کہا کہ مولانا نور الحسن بخاری کی تقریر نے اس کو اس جرم پر اکسایا تھا جس میں شیعوں کو قتل کرنے والے کو غازی علم دین شہید سے نسبت دی گئی تھی اور جنت کی بشارت دی گئی تھی۔ مولانا نور الحسن بخاری کو کوئی سزا نہ ملی، جس سے فسادی علما کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

پاکستان کی ابتدائی تاریخ میں 1963 کا سال سب سے زیادہ خونریز ثابت ہوا۔ اسی سال جنرل ایوب نے مذہبی سیاسی جماعتوں کے بعض مطالبات تسلیم کیے تھے۔ 3 جون 1963 کو بھاٹی دروازہ لاہور میں عزاداری کے جلوس پر پتھروں اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو عزادار قتل اور سو کے قریب زخمی ہوئے۔ نارووال، چنیوٹ اور کوئٹہ میں بھی عزاداروں پر حملے ہوئے۔ اس سال دہشت گردی کی بدترین واردات سندھ کے ضلعے خیر پور کے گاؤں ’ٹھیری‘ میں پیش آئی جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عاشورا کے دن 120 عزاداروں کو کلہاڑیوں اور تلواروں کی مدد سے ذبح کیا گیا۔ سولہ جون کو لاہور میں جمعیت علمائے اسلام کے مفتی محمود، شورش کاشمیری اور مولانا غلام غوث ہزاروی وغیرہ نے اس قتل عام کی حمایت میں جلسہ کیا جس میں اس قتل عام کا ذمہ دار مقتولین کو قرار دیا اور عزاداری پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے ان واقعات پر افسوس کے اظہار کو شیعہ نوازی قرار دیا ۔ ان جرائم میں ملوث افراد کو آج تک کوئی سزا نہ مل سکی نہ ہی تنظیم اہلسنت پر پابندی لگی۔

ساٹھ کی دہائی کی اہم ترین پیشرفت سوشلزم کی لہر تھی جس نے عوام میں علما کے اثر و رسوخ کو کم کیا۔ اسی وجہ سے 1965 سے 1977 تک کے عرصے میں شیعہ مخالف تشدد میں نمایاں کمی نظر آتی ہے۔ جب جولائی 1977 میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر جنرل ضیاالحق نے مارشل لا نافذ کیا تو اگلے محرم، فروری 1978 میں لاہور میں 8 جب کہ کراچی میں 14 شیعہ قتل ہوئے۔ جنرل ضیا کے دور اور اس کے بعد کے ادوار میں ایسے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ نوے کی دہائی میں مسجدیں قتل گاہ بن گئیں، کلاشنکوف اور دستی بم عام ہو گئے۔ 11 ستمبر 2001 میں امریکا پر ہونے والے حملے کے بعد امریکا نے افغانستان پر طالبان حکومت کے خلاف جنگ چھیڑی تو کراچی کے جامعہ بنوری سے مفتی نظام الدین شامزئی نے ریاست پاکستان کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا۔ اس فتوے کے مطابق ہر قسم کا تشدد جائز قرار پایا۔ اس پر عمل کرنے کے لئے تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک دہشتگرد گروہ سامنے آیا تو شیعہ مخالف تشدد میں خودکش حملوں کا اضافہ ہو گیا۔ پاکستان کے کوچہ و بازار آگ سے جل اٹھے اور خون میں نہا گئے۔

وقت آ گیا ہے کہ فرقہ وارانہ دہشتگردی کی دو سو سالہ تاریخ کا تجزیہ کیا جائے۔ اس کے پیچھے سید احمد بریلوی کے وژن کے مطابق سیاسی اقتدار کے حصول کی خواہش کو سمجھا جائے۔ اس کو سعودی ایران پراکسی یا پاکستان کو بدنام کرنے کی انڈین یا امریکی سازش کہنا حقائق کا انکار ہے۔ یہ کہنا کہ یہ بیرونی قوتوں کی سازش ہے، اور افغان جہاد سے پہلے اس علاقے میں ایسا کچھ نہ تھا، دراصل غلط جگہ پر نشانہ لگانا ہے۔ بیرونی ہاتھوں پر ذمہ داری ڈالنے کا مطلب ہے کہ ہم خود کچھ نہیں کر سکتے۔ اس سوچ کو بدل کر اس مسئلے کی مقامی حیثیت کو تسلیم کر کے اس کے حل کی ذمہ داری قبول کرنے اور اپنی آنے والی نسلوں کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب مرض کی تشخیص ٹھیک ہو جائے تو علاج بھی ہو جایا کرتا ہے۔

ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔