معروف صحافی ابصار عالم کا کہنا ہے کہ عمران خان آج جلسے میں کہ رہے ہیں کہ یہ ملک ان کا اپنا ملک ہے اور فوج ان کی اپنی فوج ہے۔ وہ اگر فوج پر تنقید کرتے ہیں تو اس کی بہتری کے لیے کرتے ہیں مگر پس پردہ وہ فوج کے بارے میں جو بات کرتے ہیں اور جس زبان میں بات کرتے ہیں وہ سب کو پتہ ہے۔ عمران خان جیسی حیثیت والے سیاسی رہنما کو یہ دوغلا پن زیب نہیں دیتا۔
انہوں نے سوال کیا کہ عمران خان کی ذات کے یہ تضاد ججوں اور جرنیلوں کو کیوں نظر نہیں آتے؟ ابصار عالم کا مزید کہنا تھا کہ آج عمران خان نے پشاور جلسے میں کہا ہے کہ وہ اس حکومت کو اگلا آرمی چیف تعینات نہیں ہونے دیں گے۔ اب انہوں نے یہ کس بنیاد پر کہا ہے اور کس حیثیت سے کہا ہے اس کا مجھے اندازہ نہیں ہے۔ بہرحال یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں منگل کی شام کو گفتگو کرتے ہوئے ابصار عالم کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اس وقت ملک کے جو حالات کیے ہیں اس پر ان کو لانے والوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے۔ لانے والوں کو چاہئیے کہ اگر یہی تبدیلی تھی جو آپ لانا چاہ رہے تھے تو پھر کھلے بازوؤں سے عمران خان کو قبول کریں۔
عمران خان جب یہی زبان قاضی فائز عیسی کے بارے میں استعمال کرتا تھا، جسٹس شوکت صدیقی کے بارے میں کرتا تھا تب تو آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ اب اپنے بارے میں اتنی چبھن کیوں ہو رہی ہے؟ اب یہ آگ آپ کے اپنے گھر تک پہنچی ہے اور یہ کسی اور نے نہیں آپ کے اپنے لاڈلے نے پہنچائی ہے تو آپ کو سب کچھ نظر آ رہا ہے۔ آپ نے ٹی وی بھی بند کر دیا ہے اور آج آپ نے یوٹیوب بھی بند کر دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عمران خان والے اس مسئلے، اس بحران کی جڑ پہ بات کرنی چاہئیے ورنہ وہ روزانہ کوئی نہ کوئی بات کرتا رہے گا اور ہم ایسے ہی بحث کرتے رہیں گے۔ جنہوں نے یہ سب کیا ہے کیا انہوں نے آ کر معافی مانگی ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے؟
عمران خان کی تقریر کی بندش کے بارے میں بات کرتے ہوئے ابصار عالم نے کہا کہ قانون کی خلاف ورزی کوئی بھی کرے اس کے خلاف ایکشن ہونا چاہئیے۔ لیکن عمران خان کی تقریر کو روکنے اور اے آر وائی کو بین کرنے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ غلط تھا۔ جب اے آر وائی اور بول ٹی وی ہمیں غداری کے فتوے دے رہے تھے تب اے آر وائی کو ڈی ایچ اے کا پروجیکٹ کس نے دیا؟ کون جواب دے گا مجھے؟ آرمی چیف یا ڈی جی آئی ایس پی آر؟ یہ زہریلے سانپ آپ نے خود پالے اور اب یہ آپ ہی کو ڈسنے کو تیار ہیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ چھ مہینے ہو گئے ہیں اس حکومت کو آئے ہوئے، اگر عمران خان نے کرپشن کی ہے تو پھر اس کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لے رہے؟ نئی حکومت نے نہ کوئی انویسٹی گیشن کی ہے نہ کوئی کیس تیار کیا ہے۔ جب آپ کیس نہیں بنا رہے تو پھر آپ مان لیں کہ آپ سب مل کر اگلے الیکشن کے لیے خان کی کمپین چلا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم والے مان لیں کہ ہم صرف حکومت میں آنا چاہتے تھے، ہمیں صرف یہی لالچ تھا۔ ہم نے اس کے علاوہ کچھ نہیں کرنا تھا۔ یا تو پی ڈی ایم والے یہ مان لیں یا پھر عمران خان کی کرپشن کے خلاف کارروائی کریں۔ آپ کا یہ دعوی ہے کہ آپ نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا، جس طرح آپ نے بچایا ہے اس طرح تو کوئی بھی بچا سکتا تھا۔ آپ نے قیمتیں بڑھائیں، ٹیکس لگائے اور ڈیفالٹ سے بچا لیا۔ آپ نے ڈیفنس بجٹ پہ کیوں نہیں کٹ نہیں لگایا؟
ان کا کہنا تھا کہ ملک کا ڈی جی آئی ایس آئی کسی دوسرے ملک میں جا کر نوکری کر لے تو کوئی مسئلہ نہیں اور ہمارے جیسا کوئی عام آدمی ایک ٹویٹ کر دے تو بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔
پروگرام کی دوسری مہمان نادیہ نقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی تقریر کو روکنے کے لیے یوٹیوب کو بند کرنا مایوس کن قدم ہے۔ ہم آزادی اظہار کے ساتھ ہیں۔ یوٹیوب کو نہیں بند ہونا چاہئیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے آج پشاور جلسے میں پھر سازش کا ذکر کیا ہے کہ سازش کے تحت انہیں ہٹایا گیا ہے۔ یعنی وہ سازش والے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔ عمران خان کے خلاف کیس چل رہے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں غصہ ہے اور دوسرا غصہ فارن فنڈنگ کیس کی وجہ سے ہے۔
نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ عمران خان کا فیصل آباد والا بیان کوئی جذباتی بیان نہیں تھا بلکہ یہ ان کی اصل سوچ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے معاملات اتنی جلدی ٹھیک ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ موجودہ حکومت کو مان لینا چاہئیے کہ انہیں عمران خان کے خلاف کرپشن کے کیس بنانے کی اجازت نہیں مل رہی یا پھر یہ مان لیں کہ شہباز شریف کے دل میں عمران خان کی محبت ہے۔
آخر میں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں جب اپنا کردار درست طریقے سے ادا کریں گی تب ہی آپ اس ملک میں جمہوریت کا وہ ڈھانچہ دیکھ سکیں گے جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔
پروگرام کے میزبان مرتضی سولنگی تھے۔ پروگرام پیر سے جمعہ ہر رات 9 بجے نیا دور ٹی وی پہ پیش کیا جاتا ہے۔