'مجھے ذاتی تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ کاروباری برادری حقیقی طور پر ٹیکس ادا کرنا چاہتی ہے، لیکن وہ نظام سے خوف زدہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں 119، سندھ میں 82، خیبر پختونخوا میں 54 اور بلوچستان میں 12 ٹیکسز عائد ہیں۔ ٹیکسوں کی اتنی بڑی تعداد کے ساتھ ہم ٹیکس نیٹ سے باہر افراد کو رضاکارانہ طور پر آگے آنے اور ایک ظالمانہ نظام میں شامل ہونے کی ترغیب کیسے دے سکتے ہیں؟' بحوالہ ٹیکس اصلاحات کی ضرورت، کاشف انور، صدر لاہور چیمبر آف کامرس، بزنس ریکارڈر، 25 اگست، 2024
پاکستان میں اس بات پر عمومی اتفاق رائے ہے کہ ٹیکس کا موجودہ نظام انتہائی غیر منصفانہ، جابرانہ، استخراجی، فرسودہ اور غیر پیداواری ہے۔ اس میں متعدد اعلیٰ شرح ٹیکس نافذ ہیں مگر ان سے محصولات کی کل وصولی انتہائی کم ہے۔ آپریشنل سطح پر یہ نظام وقت طلب، پیچیدہ اور مہنگا ہے۔ ماضی میں مختلف حکومتوں کی جانب سے پے در پے 'غیر معمولی بہتری اور اقدامات' کے بلند و بانگ دعوے کرنے کے بعد بھی محصولات ریاست کے مقرر کردہ اہداف اور مالی ضروریات سے کم حاصل ہو رہے ہیں، قرضوں کا بوجھ استطاعت سے زیادہ بڑھ رہا ہے اور مالیاتی خسارہ خطرناک بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ مالی سال 2023-24 میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب صرف 9.5 فیصد تھا جو کہ دنیا میں کم ترین ممالک میں ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے مقررہ اہداف کو پورا کرنے میں دائمی ناکامی، یہاں تک کہ نیچے کی طرف نظرثانی کے باوجود، انتہائی افسوسناک ہے، کیونکہ یہ اربوں روپے کے ریفنڈز بلاک کرنے اور ایڈوانس لینے کے بعد ہے، جو کہ آنے والے ٹیکس سالوں میں بھی واجب الادا نہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی توجہ اعداد و شمار کی دھجیاں اڑانے کی طرف دلانے کے باوجود آج تک حقائق کا پتہ لگانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
پاکستان میں اقتدار میں آنے والی حکومتیں، سویلین اور فوجی یکساں طور پر، فرسودہ، جابرانہ اور پیچیدہ نظام اور ناقص ٹیکس پالیسی کو ایک سادہ، یقینی اور کم شرح سے بدلنے کے لیے کبھی بھی آمادہ نہیں رہیں۔ اس کے برعکس تمام حکومتوں کے وزرائے خزانہ ٹیکس مشینری پر دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ اہداف کو پورا کرنے میں زیادہ سے زیادہ بے رحم ہو جائیں، چاہے اس کے معاشی ترقی اور مہنگائی پر تباہ کن اثرات ہی کیوں نہ ہوں۔
انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 114 کے نفاذ میں ایف بی آر کی کارکردگی قابلِ ٹیکس آمدنی والے تمام افراد سے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے ضمن میں بہت افسوس ناک ہے! یہ حقیقت محض اسی سے عیاں ہے کہ مالی سال 2022-23 کے دوران تقریباً 120 ملین شہریوں نے موبائل صارفین کے طور پر— پری پیڈ اور پوسٹ پیڈ دونوں — 15 فیصد بطور پیشگی ایڈجسٹ ایبل انکم ٹیکس کے طور پر ادا کیا، لیکن فعال انفرادی ٹیکس دہندگان جنہوں نے ٹیکس سال 2023 کے لیے گوشوارے جمع کروائے، ایف بی آر کی ویب سائٹ کے مطابق (فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست ہمیشہ پیر کو اپ ڈیٹ ہوتی ہے) 2 ستمبر 2024 تک 3,729,449 تھی۔ ان میں سے 60 فیصد سے زیادہ 'فائلرز' (sic) نے NIL آمدنی ظاہر کی یا قابل ٹیکس حد سے کم اور ایسا صرف زیادہ شرح کے ودہولڈنگ ٹیکس سے بچنے کے لیے کیا گیا جو نان فائلرز پر لاگو ہے! ایف بی آر کی جانب سے فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست (اے ٹی ایل) پر تازہ ترین اپ ڈیٹ کے مطابق ریٹرن فائلرز کی کل تعداد 5,478,340 تھی۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے مطابق 30 جون 2024 تک کل سیلولر/ براڈ بینڈ صارفین کی تعداد 193 ملین (79.44 فیصد موبائل کثافت) تھی، ان میں 135 ملین موبائل براڈ بینڈ صارفین (55.61 فیصد موبائل براڈ بینڈ کی رسائی)، 3 ملین فکسڈ ٹیلی فون صارفین (1.06 فیصد ٹیلی کثافت) اور 138 ملین براڈ بینڈ صارفین (57.05 فیصد براڈ بینڈ رسائی) تھے۔
31 جولائی 2024 کے اعداد و شمار یہ ہیں؛ کل سیلولر/ براڈ بینڈ صارفین 193 ملین (79.46 فیصد موبائل کثافت)، 136 ملین موبائل براڈ بینڈ صارفین (56.15 فیصد موبائل براڈ بینڈ رسائی)، 3 ملین فکسڈ ٹیلی فون صارفین (1.06 فیصد ٹیلی کثافت) اور 140 ملین براڈ بینڈ سبسکرائبرز (57.61 فیصد براڈ بینڈ دخول)۔
مالی سال 2023-24 کے دوران تقریباً 120 ملین منفرد موبائل صارفین نے ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کیا جبکہ 100 ملین کی کوئی آمدنی یا آمدنی قابل ٹیکس حد سے کم تھی! ایف بی آر تمام قابل ٹیکس افراد کو رجسٹر کرنے میں ناکام رہا، (مالی سال 2022-23 کے دستیاب ڈیٹا کی بنیاد پر قابل ٹیکس افراد کی تعداد 20 ملین سے کم نہیں تھی)۔ ٹیلی کام کمپنیز سے ان کے ہینڈ سیٹ، سفری تاریخ اور بل کی مقدار وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں اور قابل ٹیکس افراد میں موجود خلا (gap) کو پورا کیا جا سکتا تھا۔ اس سے ٹیکس کے قابل پوری آبادی کو ریٹرن فائلرز کے طور پر رجسٹر کرنے میں بھی مدد مل سکتی تھی۔ اس اقدام سے ایف بی آر نے جان بوجھ کر گریز کیا تاکہ غریب ترین موبائل صارفین سے 15 فیصد /75 فیصد جابرانہ ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کرنے کا جواز برقرار رکھا جا سکے۔ نان فائلرز موبائل صارفین یکم جولائی 2024 سے 75 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں، اگرچہ 100 ملین افراد کی آمدنی قابل ٹیکس بھی نہیں ہے۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار کسی شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرتے ہیں کہ یکم جولائی 2024 سے پوری قابل ٹیکس آبادی اور یہاں تک کہ جن کی کوئی آمدنی قابل ٹیکس نہیں، بطور پری پیڈ یا پوسٹ پیڈ موبائل/ براڈ بینڈ صارفین ایڈوانس اور ایڈجسٹ ایبل 15 فیصد انکم ٹیکس بطور فائلرز اور 75 فیصد بطور نان فائلرز ادا کر رہے ہیں۔ ان ناقابل تردید حقائق کی موجودگی میں ایف بی آر اور ان کے ہمنوا اب بھی پاکستانیوں، خاص طور پر تاجروں پر، ٹیکس چور کا لیبل لگا رہے ہیں!
تاجروں کے لیے جاری کردہ نام نہاد ’ تاجر دوست سکیم' کے ساتھ حکومت کی ان کو رجسٹر کرنے اور پیشگی انکم ٹیکس وصول کرنے کی کشمکش جاری ہے جو در اصل ایف بی آر کے خود ساختہ ماہرین کی غلط روش کی وجہ سے ہے! ایک مضمون میں شریک مصنف کی حیثیت سے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے؛
مضمون کا لنک یہ ہے؛ خوردہ فروشوں کی آمدنی پر ٹیکس اور معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن
' تاجر دوست سکیم کی سب سے بڑی خامی مختلف کاروباروں کی نوعیت اور پیمانے کو نظرانداز کرنے میں ہے، جس نے ایف بی آر میں پیشہ وارانہ قابلیت کے فقدان کو نمایاں طور پر ظاہر کیا ہے۔ ایس آر او (SRO1064 (I)/2024) ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے میں ایف بی آر حکام کی نااہلی اور فرسودہ طریقوں کی بدترین مثال ہے۔ مثال کے طور پر سکیم ایک فوٹو کاپی شاپ اور ایک ہی جگہ پر واقع موٹر گاڑیوں کے شوروم پر پیشگی ٹیکس کی ایک ہی شرح عائد کرتی ہے، باوجود اس کے کہ ان کے کاروباری آپریشنز اور آمدنی کی سطح بہت مختلف ہے۔
ایف بی آر کی غلط سوچ مختلف صنعتوں اور کاروباری طبقات کی الگ الگ حرکیات اور معاشی حقائق کا احاطہ کرنے میں ناکام ہے۔ مختلف کاروباری اقسام میں یکساں اشارے والی آمدنی کا اطلاق کرتے ہوئے، تاجر دوست سکیم ہر شعبے کی منفرد خصوصیات اور مالی صلاحیتوں کو نظرانداز کرتی ہے۔ نتیجے کے طور پر یہ ناصرف ٹیکس کا غیر مساوی بوجھ پیدا کرتی ہے بلکہ جدید کاروباری ماحول کی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں ایف بی آر کی جانب سے باریک بینی اور موافقت کی کمی کو بھی ظاہر ہوتی ہے'۔
ایف بی آر کی جانب سے خوردہ فروشوں کے لیے مجوزہ آسان دو لسانی (انگریزی اور اردو) انکم ٹیکس ریٹرن، جو ٹیکس سال 2023 کے لیے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے میں ناکام رہے، نے آسانی سے اس بات کو نظرانداز کر دیا ہے جو ایک کالم میں تجویز کی گئی تھی؛ 'پاکستان میں ریٹیل آؤٹ لیٹس کی حقیقی صلاحیت، اگر 4 فیصد کی سیلز ٹیکس کی شرح پر ٹیکس اور مجموعی رسیدوں کے 1 فیصد پر انکم ٹیکس، سالانہ 15 بلین امریکی ڈالر کا خالص ہو سکتا ہے'۔ یہ تحریر خوردہ مرحلے پر انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس دونوں کا خیال رکھتی ہے اور معیشت کو دستاویزی بنانے کے ساتھ ساتھ وصولی بھی غیر معمولی ہو سکتی ہے۔
سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ جو امر تاجروں اور دوسروں کو ایف بی آر سے دور رکھتا ہے وہ موجودہ ٹیکس دہندگان سے زیادہ سے زیادہ ریونیو حاصل کرنے کے لیے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 122(5 اے) اور 177 کا بے جا اور غیر قانونی استعمال ہے۔ ایف بی آر کے افسران کی من مانی اور اختیارات سے تجاوز تعمیل کرنے والے ٹیکس دہندگان کو مزید عدم اطمینان کی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے، جس سے عوام کی ٹیکس گوشوارے نہ داخل کرانے کی روش میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ٹیکس وصولی کے لیے ایف بی آر کو اپنے فرسودہ طریقہ کار پر نظرثانی کرنے، اور نظام کو جدید بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کلیدی اقدامات میں جدید آٹومیشن سسٹم کو نافذ کرنا اور آڈٹ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک مرکزی ڈیٹا بیس تیار کرنا شامل ہے۔
یہ بالکل واضح ہے کہ اصل مسئلہ ٹیکس کا ناقص نظام اور ایف بی آر میں اہلیت کا بحران ہے۔ مالی سال 2023-24 میں ایف بی آر نے 9415 ارب روپے کے مقرر کردہ ہدف کے مقابلے میں 9311 ارب روپے جمع کیے۔ سمری آف کنسولیڈیٹڈ وفاقی اور صوبائی مالیاتی آپریشنز، 2023-24 کے مطابق ایف بی آر نے 4.53 ٹریلین روپے براہ راست ٹیکس کے طور پر اکٹھے کیے، سیلز ٹیکس کے طور پر 3.99 ٹریلین روپے، کسٹم ڈیوٹی کے طور پر 1.10 ٹریلین روپے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے طور پر 577.4 بلین روپے جمع کیے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں بہت سی ودہولڈنگ شقیں بالواسطہ ٹیکسوں کی نوعیت رکھتی ہیں جو ناصرف تنخواہ دار طبقے اور غریبوں پر منفی اثر ڈالتی ہیں بلکہ یہ ان عوامل میں بھی شامل ہیں جن کی وجہ سے فروری 2023 میں افراط زر 31.5 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔
وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر درجن بھر بلند شرح ٹیکس محصولات اور نان ٹیکس لیویز نے قومی سطح پر 13.27 ٹریلین روپے کی قومی آمدنی حاصل کی جبکہ کل اخراجات اس کے مقابلے میں 20.48 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے۔ یہ ہے ہماری اصل مالیاتی بیماری اور معاشی مخمصہ۔
مالی سال 2023-24 میں صرف قرض کی خدمت ہی 8.159 ٹریلین روپے تھی۔ وفاقی حکومت کی خالص آمدنی (ٹیکس اور نان ٹیکس) صوبوں کو 5.263 ٹریلین روپے کی منتقلی کے بعد 7.079 ٹریلین روپے تھی۔ وفاقی حکومت نے 1080 بلین روپے کے بلند شرح سود پر قرضے تو محض اس لیے لیے تا کہ صرف قرض کی خدمت میں بڑھتے ہوئے شارٹ فال کو پورا کیا جا سکے۔ اس طرح پورے 1.859 ٹریلین روپے کے دفاعی اخراجات اور دیگر تمام جاری اور ترقیاتی اخراجات مہنگے ادھار فنڈز سے پورے کیے گئے۔
ظاہر ہے پاکستان کی کوئی حکومت اور سیاسی جماعت کم شرح سے وسیع تر ٹیکس بنیاد پر محصولات کے حصول میں ہرگز کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ جب تک یہ نہیں کیا جاتا، ٹیکس محصولات جمع کرنے کی صلاحیت بہت ہی کم رہے گی، جو کہ محض ایف بی آر کی سطح پر اگر دستاویزی اور غیر دستاویزی معیشت کا 17 فیصد ہو تو 34 ٹریلین روپے سے کم نہیں ہے۔
اس جانب توجہ دینے کے بجائے ایڈوانس ٹیکس، پیٹرولیم لیوی اور آسانی سے وصولی کے حوالے سے 70 سے زائد ودہولڈنگ دفعات کے استعمال سے کاروبار کا پورا ماحول تباہ ہو چکا ہے۔ ہماری حکومتوں اور ریونیو افسرشاہی (revenuecracy) کی اصل ناکامی صلاحیت کے مطابق محصولات کی عدم وصولی ہے۔ اس سلسلے میں جدید سوچ اور تکنیکی آلات کو بروئے کار لانے میں عدم دلچسپی بنیادی مسئلہ ہے۔
پاکستان کا اصل مخمصہ یہ ہے کہ امیر اور طاقتور افراد استطاعت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ ٹیکس سال 2022 اور 2023 میں 4000 سے کم افراد نے ایک ملین سے 10 ملین روپے کے درمیان ٹیکس ادا کیا۔ ٹیکس سال 2023 میں 5000 سے کم افراد نے 10 ملین روپے سے زیادہ کے ٹیکس کا اعلان کیا، اور ٹیکس سال 2024 میں پوزیشن مزید خراب ہو جائے گی۔ فنانس ایکٹ 2024 کے ذریعے لگائے گئے انتہائی بلند شرح کے انکم ٹیکس مزید ٹیکس چوری کی ترغیب دیں گے جیسا کہ 18 سے 22 فیصد سیلز ٹیکس کی وجہ سے ہو رہا ہے!
پاکستان میں انتہائی امیر اور طاقتور لوگ ٹیکس کی ذمہ داریوں سے گریز کر رہے ہیں، لیکن لاکھوں افراد کی کوئی آمدنی نہیں ہے یا ان کی آمدنی قابل حد ٹیکس سے کم ہے، اور متوسط آمدنی والے تنخواہ دار افراد کو ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور جائز ریفنڈز کی واپسی سے محروم بھی۔ یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 4 (c) کی سرا سر خلاف ورزی ہے جو کہتا ہے؛ 'کسی شخص کو ایسا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کا قانون اس سے تقاضا نہیں کرتا'۔