Get Alerts

خوردہ فروشوں کی آمدنی پر ٹیکس اور معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن

تاجر دوست سکیم کاروبار کی حقیقی دنیا کی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں ناکامی کی عکاسی کرتی ہے۔ تاجران کا احتجاج اور عدم اعتماد ٹیکس انتظامیہ کے لیے ایک زیادہ بہتر اور ٹیکنالوجی پر مبنی نقطہ نظر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے، جو عصری کاروباری طریقوں سے ہم آہنگ ہو اور ٹیکس کی منصفانہ اور موثر وصولی کو یقینی بنائے۔

خوردہ فروشوں کی آمدنی پر ٹیکس اور معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن

پاکستان کو پچھلی چار دہائیوں سے بغیر کسی ٹھوس نتائج کے حصول کے اپنے ٹیکس کی بنیاد کو بڑھانے کے دائمی چیلنج کا سامنا ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جو کہ قرضوں کی دائمی غلامی سے نکلنے اور بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وسیع البنیاد ٹیکس آمدنی کے ذرائع کی ضرورت کے پیش نظر کافی ستم ظریفی کا مظہر ہے۔ تاریخی طور پر، پاکستان کا متزلزل ٹیکس نظام آبادی کے کم مراعات یافتہ طبقوں پر جابرانہ، ضرورت سے زیادہ اور غیر متناسب ٹیکس کا بوجھ مسلط کرتا رہا ہے، جبکہ امیروں اور طاقتوروں کو بے مثال ٹیکس چھوٹ اور استثنیٰ جات حاصل ہیں۔ نتیجتاً مالی سال 2023-24 میں ٹیکس اخراجات کے حیران کن اعداد و شمار4 کھرب روپے تک پہنچ گئے (9311 بلین روپے کی کل ٹیکس وصولی کا 43 فیصد)۔

اس مسئلے میں اہم کردار ادا کرنے والی حکومتیں، سویلین اور فوجی یکساں طور پر، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے میں انتظامی کوتاہیوں کے ساتھ نئے موثر اقدامات متعارف کرانے میں ناکام رہی ہیں۔ پالیسی تبدیلیاں جن کا مقصد نئے افراد اورطبقات کو ٹیکس کے نظام میں شامل کرنا تھا، اکثر زمینی حقائق کو مدنظر رکھے بغیر تیار کی گئیں یا پھر بہت سے اچھے اقدامات بھی نفاذ کے فقدان کا شکار ہو گئے۔

اس مسئلے کو حل کرنے کی ایک حالیہ کوشش میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو  نے  30مارچ 2024 کو 'تاجر دوست سکیم' کا آغاز کیا۔ اس اقدام کا مقصد، خاص طور پر ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس کے نظام میں مکمل طور پر ضم کرنا تھا اور اس کے لیے ابتدا میں محض 6 شہروں کا انتخاب کیا گیا۔ ریٹیل سیکٹر طویل عرصے سے ٹیکس حکام کے لیے درد سر بنا ہوا ہے، یہ بڑے پیمانے پر غیر رسمی معیشت میں کام کر رہا ہے۔ اگرچہ تاجران اور دکاندر ودہولڈنگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں، مگر انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس گوشوارے فائل کرنے سے بچنے کے لیے ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔

پاکستان میں خوردہ فروشوں کی ٹیکس کی حقیقی صلاحیت، اگر سیلز ٹیکس کی شرح 4 فیصد اور مجموعی وصولیوں کے 1 فیصد پر انکم ٹیکس لگایا جائے تو سالانہ 15 بلین ڈالر ہے۔ خوردہ فروش دکانداروں کی اکثریت بغیر انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس گوشوارے داخل کیے مالیاتی لین دین میں مصروف ہے۔ تاجر دوست سکیم کا مقصد ایسے تمام خوردہ فروشوں کو باضابطہ طور پر ٹیکس فریم ورک میں شامل کر کے اس بے ضابطگی کو دور کرنا ہے، اس طرح ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا اور محصول کی وصولی میں اضافہ کرنا مقصود ہے۔

تاجر دوست سکیم ان تاجروں اور دکانداروں کو نشانہ بناتی ہے جو ایف بی آر کی طرف سے متعین شہروں میں مقررہ جگہوں جیسے دکانوں، سٹورز، گوداموں، دفاتر یا اسی طرح کے احاطے سے کام کرتے ہیں۔ اس سکیم کے تحت خوردہ فروشوں کو ایف بی آر میں رجسٹر ہونے اور ماہانہ کم از کم ایڈوانس ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ابتدائی طور پر مارچ 2024 میں اس سکیم میں چھ شہروں کا احاطہ کیا گیا تھا، لیکن اس کے بعد اس میں 42 شہروں کو شامل کیا گیا ہے۔

تاجر دوست سکیم میں تازہ ترین ترمیمی ایس آر او (SRO1064 (I)/2024) جو ایف بی آر کی طرف سے 22 جولائی 2024 کو جاری کیا گیا، ہر شہر اور مقام کے لیے مخصوص ضروریات کی تفصیلات بتاتا ہے۔ یہ مختلف قسم کے کاروباروں کے لیے ایک 'اشاراتی آمدنی' (indicative income ) کا تخمینہ تفویض کرتا ہے اور 100 روپے سے 60,000 روپے ماہانہ پیشگی ٹیکس کی ادائیگیوں کا تعین کرتا ہے۔ اس کا مقصد کاروبار کے مقام اور متوقع آمدنی کی بنیاد پر ٹیکس کی ذمہ داریوں کو معیاری بنانا ہے، اس طرح ٹیکس جمع کرنے کے عمل کو ہموار کرنا اور تعمیل کو بہتر بنانا ہے۔

تاجر دوست سکیم کی سب سے بڑی خامی مختلف کاروباروں کی نوعیت اور پیمانے کو نظرانداز کرنے میں ہے، جس نے ایف بی آر میں پیشہ وارانہ قابلیت کے فقدان کو نمایاں طور پر ظاہر کیا ہے۔ ایس آر او (SRO1064 (I)/2024) ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے میں ایف بی آر حکام کی نااہلی اور فرسودہ طریقوں کی بدترین مثال ہے۔ مثال کے طور پر سکیم ایک فوٹو کاپی شاپ اور ایک ہی جگہ پر واقع موٹر گاڑیوں کے شوروم پر پیشگی ٹیکس کی ایک ہی شرح عائد کرتی ہے، باوجود اس کے کہ ان کے کاروباری آپریشنز اور آمدنی کی سطح بہت مختلف ہے۔

ایف بی آر کی غلط سوچ مختلف صنعتوں اور کاروباری طبقات کی الگ الگ حرکیات اور معاشی حقائق کا احاطہ کرنے میں ناکام ہے۔ مختلف کاروباری اقسام میں یکساں اشارے والی آمدنی کا اطلاق کرتے ہوئے، تاجر دوست سکیم ہر شعبے کی منفرد خصوصیات اور مالی صلاحیتوں کو نظرانداز کرتی ہے۔ نتیجے کے طور پر یہ ناصرف ٹیکس کا غیر مساوی بوجھ پیدا کرتی ہے بلکہ جدید کاروباری ماحول کی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں ایف بی آر کی جانب سے باریک بینی اور موافقت کی کمی کو بھی ظاہر ہوتی ہے۔

ایف بی آر کو جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے نفاذ کے طریقہ کار کو بڑھانا اور بہتر کرنا چاہیے تھا۔ آج تک حکومت اور ایف بی آر دونوں نے باضابطہ بینکنگ سسٹم کے ذریعے معیشت اور لین دین کو باقاعدہ بنانے کے لیے جدوجہد نہیں کی ہے، جہاں ان کا سراغ لگایا جا سکتا ہو اور ان کی نگرانی کی جا سکے۔ اس طرح کا طریقہ کار مخصوص کاروباروں کو ان کی حقیقی مالی سرگرمیوں کی بنیاد پر ٹیکس کی ذمہ داریوں کو تیار کرنے کے لیے قیمتی ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔

اس کے بجائے مندرجہ بالا خرابیوں کی وجہ سے موجودہ سکیم تاجروں اور دکانداروں میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کا باعث بنی ہے۔ 28 اگست کو ملک گیر احتجاج اور ہڑتالوں کے ذریعے تاجروں نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا، جس میں ان کو کچھ سیاسی جماعتوں کی حمایت اور تائید بھی حاصل تھی۔

تاجر دوست سکیم کاروبار کی حقیقی دنیا کی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں ناکامی کی عکاسی کرتی ہے۔ تاجران کا احتجاج اور عدم اعتماد ٹیکس انتظامیہ کے لیے ایک زیادہ بہتر اور ٹیکنالوجی پر مبنی نقطہ نظر کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے، جو عصری کاروباری طریقوں سے ہم آہنگ ہو اور ٹیکس کی منصفانہ اور موثر وصولی کو یقینی بنائے۔

پاکستان میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے حکومت کا نقطہ نظر عصری معاشی حقائق سے ہم آہنگ ہونے کی ایک اہم ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے تیز رفتار ارتقاء اور ڈیجیٹل اصلاحات کے باوجود ٹیکس وصولی کے لیے پرانے طریقوں پر انحصار ایف بی آر کی ناکامی اور نااہلیت کو مکمل طور پر واضح اور ثابت کرتا ہے۔ یہ قدیم طریقہ کار جدید کاروباری ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں ناکام ہے، جس کے نتیجے میں آمدنی کو ٹیکس کرنے میں عدم مساوات پیدا ہوتی ہے۔

ان خامیوں کو دور کرنے کی طرف ایک بنیادی قدم معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن ہے۔ سب سے پہلے، ایک واضح وژن اور سٹریٹجک پلان کا قیام ضروری ہے۔ اس میں ڈیجیٹل تبدیلی کے لیے مخصوص اہداف کا تعین کرنا شامل ہے، جیسے کہ شفافیت اور کارکردگی میں اضافہ، اور تفصیلی ٹائم لائنز اور مطلوبہ وسائل کے ساتھ روڈ میپ کا خاکہ بنانا۔ مزید براں، ڈیجیٹل لین دین کو سپورٹ کرنے کے لیے ریگولیٹری فریم ورک کو اپ ڈیٹ کرنا ضروری ہے۔ اس میں ڈیجیٹل شناخت کی توثیق، سکیورٹی، اور لین دین کے عمل کے معیارات کو نافذ کرنا شامل ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ڈیجیٹل تعاملات محفوظ اور قانون کے مطابق ہوں۔

ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دینا ایک اور اہم قدم ہے۔ کاروباری اداروں اور افراد کو ڈیجیٹل ٹولز کو مؤثر طریقے سے سمجھنے اور استعمال کرنے میں مدد کرنے کے لیے جامع تربیتی پروگرام اور عوامی آگاہی کی مہم ایک شرط ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری سب سے اہم ہے۔ قابل اعتماد انٹرنیٹ تک رسائی کو بڑھانا اور آئی ٹی کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنا، جیسا کہ ڈیٹا سینٹرز اور سائبرسکیوریٹی اقدامات، بغیر کسی رکاوٹ کے ڈیجیٹل لین دین اور نگرانی کو سپورٹ کریں گے۔

مالیاتی شعبے میں آن لائن اور موبائل پلیٹ فارمز کے ذریعے بینکنگ خدمات کو ڈیجیٹائز کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل والیٹس اور فنٹیک ایجادات کو فروغ دینے سے مالیاتی لین دین کو جدید بنایا جائے اور ٹیکس ٹریکنگ کو بہتر بنایا جائے جو پاکستانی بینک پیش کر رہے ہیں۔ تاہم، ضرورت مالی شمولیت کے تناسب کو بہتر بنانے کی ہے، جو کہ پڑوسی ممالک چین، بھارت اور ایران کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اسی طرح، ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس کی تعمیل کو ہموار کرنے کے لیے ای کامرس پلیٹ فارمز، ڈیجیٹل پوائنٹ آف سیل سسٹمز، اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ ٹولز کو یکجا کرکے اپنانا چاہیے۔

ہول سیل سیکٹر کے لیے ڈیجیٹل B2B پلیٹ فارمز اور ڈیجیٹل ٹولز کے ذریعے سپلائی چین (supply chain) کا بہتر انتظام کارکردگی اور شفافیت میں اضافہ کر سکتا ہے۔

تجارتی شعبے (تھوک اور خوردہ) کو بھی ڈیجیٹائزیشن کی ضرورت ہے، بشمول الیکٹرانک تجارتی دستاویزات اور ڈیجیٹل کسٹم کے عمل کو اپنانا تاکہ سرحد پار لین دین کو آسان بنایا جا سکے۔ بروکرز اور ایجنٹس کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم تیار کر کے مڈل مین/ بیچولیوں کے کردار پر توجہ دینے سے ناکاریاں کم ہوں گی اور لین دین کی شفافیت میں اضافہ ہوگا۔

سرکاری خدمات کو ای-گورنمنٹ (e-government) پلیٹ فارمز پر منتقل ہونا چاہیے، پبلک سیکٹر کے آپریشنز کو ہموار کرنے اور خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے ایجنسیوں میں ڈیٹا کو یکجا کرنا چاہیے۔ مزید براں، ڈیٹا پروٹیکشن کے مضبوط قوانین اور سائبر سکیورٹی کے جدید اقدامات کے ذریعے مضبوط ڈیٹا پرائیویسی اور سکیورٹی کو یقینی بنانا، ڈیجیٹل لین دین اور ذاتی معلومات کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، یہ ہماری مقننہ کی ناکامی ہے کہ وہ ڈیٹا پرائیویسی قوانین کو پاس کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ یہ چونکا دینے والی حقیقت ہے کہ ایف بی آر کو ڈیجیٹل بنانے کے دعوؤں کے باوجود آج تک پاکستان نے ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کا قانون بھی پاس نہیں کیا۔

تاہم، ہمارے حکمران اب بھی آئی ٹی میں انقلاب لانے کے خواب دیکھتے ہیں، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے اپنی کوششوں کا دعویٰ کرتے اور ان کی قدر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ رازداری کو یقینی بنانے اور ڈیٹا کی حفاظت کے لیے بنیادی قانون سازی پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں ہیں۔

باقاعدہ نگرانی اور تشخیص، بشمول آڈٹ اور فیڈ بیک میکنزم، ڈیجیٹل سسٹم کی تاثیر اور مسائل کے فوری حل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس طرح کے اقدامات ناصرف جدت اور موافقت کی حمایت کریں گے، بلکہ یقینی طور پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز (digital technologies) میں تحقیق اور ترقی کو بھی فروغ دیں گے، جس سے معیشت مسابقتی رہے گی۔ اس کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور بین الاقوامی تعاون پاکستان کے معاشی طریقوں کو عالمی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے بہترین طریقوں اور ٹیکنالوجیز کو اپنانے میں سہولت فراہم کرے گا۔ ان جامع اقدامات کے ذریعے حکومت ٹیکس وصولی کو جدید بنا سکتی ہے، ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کر سکتی ہے اور مجموعی اقتصادی کارکردگی کو بڑھا سکتی ہے۔

حذیمہ بخاری اور ڈاکٹر اکرام الحق وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔

عبدالرؤف شکوری امریکہ میں مقیم کارپوریٹ وکیل ہیں اور 'وائٹ کالر کرائمز اینڈ سینکشنز کمپلائنس' کے ماہر ہیں۔