سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی: جسٹس اطہرمن اللہ

سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی: جسٹس اطہرمن اللہ
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق کیس میں جسٹس اطہر من اللہ نے تفصیلی نوٹ جاری کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی انا ایک طرف رکھ کر آئینی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔

جسٹس اطہرمن اللہ کا تفصیلی نوٹ 25 صفحات پر مشتمل ہے۔تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا ہےکہ تحریک انصاف کی درخواست پر کارروائی شروع کر نا قبل از وقت تھی۔ جس انداز سے کارروائی ہوئی اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی۔ کارروائی شروع کرنے سے سیاسی جماعتوں کو عدالت پر اعتراض اٹھانے کی دعوت دی گئی۔ اس قسم کے اعتراضات سے عوام کے عدالتوں پر اعتماد پر اثر پڑتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ عدالتی کارروائی کے دوران بھی عدالت میں اعتراضات داخل کرائے گئے۔ سیاسی جماعتوں سے متعلقہ مقدمات میں سوموٹو اختیار استعمال کرنے میں بہت احتیاط برتنی چاہیے۔ عدالت سے رجوع کرنے والی سیاسی جماعت کی نیک نیتی بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

نوٹ میں مزید کہا گیا کہ سیاست دان مناسب فورمز کے بجائے عدالت میں تنازعات لانے سے ہارتے یا جیتتے ہیں لیکن عدالت ہرصورت ہار جاتی ہے۔ سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو  اپنی انا ایک طرف رکھ کر آئینی ذمہ داریوں کو  پورا کرنا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ میں قاسم سوری رولنگ کیس کا بھی حوالہ دیا ہے۔ لکھا کہ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن میں جانے کے بجائے استعفے دیے۔

نوٹ میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں پہلی مرتبہ معاملہ اس وقت آیا جب عدم اعتماد کی تحریک چل رہی تھی، جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے 12ججز سے مشاورت کے بعد عدم اعتماد پر ازخودنوٹس لیا،پانچ ججز نے فیصلہ دیا کہ رولنگ پر ووٹنگ کرنے کی بجائے اسمبلی تحلیل کرنا غیر آئینی عمل تھا۔

تفصیلی نوٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے اسمبلی سے استعفوں کی وجہ سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔ پی ٹی آئی نے پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے دوررس نتائج مرتب ہوئے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ دونوں صوبوں میں انتخابات نہ کرانے پرمتعلقہ ہائیکورٹس سے رجوع کیا گیا۔ ہائیکورٹس میں کیس زیرالتوا تھااس کے باوجود سوموٹو لیا گیا۔ ہائیکورٹس کی صلاحیت پرشک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر جج نے آئین کے تحفظ اور اسے محفوظ بنانے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ اگر فل کورٹ تشکیل دیا جاتا تو اس صورت حال سے بچا جا سکتا تھا۔ سپریم کورٹ نے ماضی سےکوئی سبق نہیں سیکھا۔ وقت آگیا ہےکہ تمام ذمہ داران اپنے موقف سے ایک قدم پیچھےہٹیں اور کچھ خود شناسی کا سہارا لیں۔ججز اپنے فیصلوں میں غیر جانبداری اور شفافیت سے عزت کماتے ہیں۔