حکومت اگر ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز لے آتی ہے تو اطہر من اللہ کے نوٹ سے انہیں فائدہ مل سکتا ہے لیکن ایسا ہوتا ہے تو پی ٹی آئی قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز کے خلاف ریفرنسز لے آئے گی۔ ایک کھچڑی پک رہی ہے اور اس کو روکا نہ گیا تو عدالتی بریک ڈاؤن کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ یہ کہنا ہے ماہر قانون حیدر وحید کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں انہوں نے کہا کہ حکومت اگر ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنا چاہتی ہے تو صدر پاکستان اس ریفرنس کو روک سکتے ہیں تاہم حکومت اگر جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف درخواست جمع کرواتی ہے تو کونسل خود بھی اس درخواست کو ریفرنس بنا کر اس پر کارروائی شروع کر سکتی ہے۔ درخواست پر کارروائی ہو سکتی ہے یا نہیں، اگر یہ درخواست چیف جسٹس کے خلاف دائر کی گئی ہو تو چیف جسٹس اس فیصلے میں شامل نہیں ہوں گے کہ اسے ریفرنس بنایا جا سکتا ہے یا نہیں۔
قانون دان احمد حسن نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے جہاں عدالتوں کے سیاست سے دور رہنے کی بات کی وہیں انہوں نے 2012 میں دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کا بھی حوالہ دے دیا جو بذات خود ایک سیاسی معاملہ ہے۔ جس طرح عدلیہ کی سیاسی معاملات میں مداخلت کا انہوں نے اپنے فیصلے میں اعتراف کیا وہ پہلے کبھی سامنے نہیں آیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سنایا کہ چیف جسٹس کے پاس بنچ بنانے کا اختیار نہیں ہے تو جس بنچ کے تحت قاضی صاحب نے یہ فیصلہ سنایا وہ بھی چیف جسٹس ہی کا بنایا ہوا تھا تو کیا اس صورت میں قاضی صاحب کا فیصلہ بذات خود غیر قانونی نہیں ہو جاتا؟
صحافی اعجاز احمد نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس ہنگامی نہیں تھا، معمول کے مطابق ہوا ہے۔ اگرچہ اعلامیے کے مطابق اس میں انتخابات سے متعلق بات نہیں ہوئی تاہم میں سمجھتا ہوں کہ فی الحال الیکشن کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔
تجزیہ کار ضیغم خان نے کہا کہ خوش آئند بات ہے کہ سپریم کورٹ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنا تجزیہ کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا کرائسس سب سے پہلے حل ہونے والا ہے، اگر یہ حل نہ ہوا تو باقی کرائسس بھی حل نہیں ہو سکتے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔