وہ موقع جب عمران خان تحریک لبیک کے ہاتھوں بلیک میل ہوئے

کسی حکومتی اہلکار نے کچھ نہ بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کا گلا اپنے عالی شان بھاشن میں جو تجاویز پیش کر کر کے بیٹھ گیا تھا ان تجاویز کو کیوں اور کس کے کہنے پہ خاطر میں نہ لایا جا سکا۔ کسی نے یہ بتانے کی بھی زحمت گوارا نہ کی کہ قوم سے خطاب میں جو آدمی ارسطو بنا ہوا تھا اب مُنہ لٹکائے گُونگا کیوں بنا بیٹھا ہے۔

وہ موقع جب عمران خان تحریک لبیک کے ہاتھوں بلیک میل ہوئے

یہ زیادہ پرانی بات نہیں، 3 ہی سال پہلے کا قصہ ہے۔ ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی اور عمران خان وزیر اعظم تھے۔ یکایک حکومت اور آنجہانی خادم حسین رضوی کی مذہبی جماعت تحریک لبیک کی آپس میں ٹھن گئی۔ دونوں جانب سے تند و تیز بیانات کی برسات شروع ہوئی اور طرفین انتہاؤں پہ جھولتے نظر آئے۔

عوام پر اس گرج چمک کے براہ راست چھینٹے اس وقت نازل ہوئے جب اپریل 2021 کی ایک تپتی دوپہر کو لاہور میں ہنگامہ آرائی شروع ہوئی۔ تحریک لبیک کے کارکنوں نے ٹائر جلا کر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے قصور کو لاہور سے ملانے والی شاہ راہ فیروز پور روڈ بلاک کر دی اور  اس کے اثرات لاہور کی مجموعی فضا پر منڈلانے لگے۔ مختلف چوکوں میں ٹریفک پھنسنے لگی تو محسوس ہوا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہو گئی ہے۔

خبروں سے پتہ چلا کہ علامہ خادم حسین رضوی کے صاحب زادے اور تحریک لبیک کے سربراہ سعد حسین رضوی کو لاہور میں پولیس نے اس وقت حراست میں لے لیا جب وہ نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے کسی جگہ پہنچے تھے۔ اس گرفتاری کی خبر کارکنوں تک پہنچی تو وہ لاہور میں سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج شروع کر دیا۔

تنازعہ یہ تھا کہ خادم حسین رضوی نے اپنی زندگی میں تحریک انصاف حکومت کے سامنے یہ مطالبہ رکھا تھا کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر فرانس کے سفیر کو فی الفور ملک بدر کیا جائے اور فرانس کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ اس وقت برگیڈئیر اعجاز شاہ مرکز میں وزیرِ داخلہ تھے۔

حکومت نے تب خادم رضوی کو یقین دہانی کرائی کہ ہم ایک قرارداد پارلیمنٹ میں لائیں گے اور سیاسی اور پارلیمانی انداز میں اس مسئلے کو سلجھائیں گے، آپ لوگ ذرا دھیرج رکھیں۔

حکومت نے سوچا کہ وقتی ہومیوپیتھک تسلی دے کر خادم رضوی کو ٹھنڈا کرنا بہت ضروری ہے۔ تھوڑا وقت گزر گیا تو خادم رضوی کو یہ مطالبہ بھول بھال جائے گا۔ یوں تحریکِ لبیک اپنے مطالبے سے دست بردار ہو جائے گی اور حکومت کسی ممکنہ بڑی مصیبت سے بچ جائے گی۔ خادم حسین رضوی اور ان کی جماعت نے اس حکومتی دلاسے پر دھیرج تو رکھا مگر اپنے مطالبے پر بھی ثابت قدم رہے۔ اسی دوران خادم حسین رضوی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے اور ان کی جگہ ان کے صاحب زادے سعد رضوی تحریک لبیک کے سربراہ بن گئے۔

سعد حسین رضوی لاہور کے کسی مدرسے میں ابھی زیرِ تعلیم تھے۔ وہ سربراہ بنے تو انہوں نے والد کے مشن کو آگے بڑھایا اور عمران خان حکومت کو اس کا وعدہ یاد دلایا۔ اس وقت تک شیخ رشید اپنی سرتوڑ کوششوں کے بعد بالآخر برگیڈیئر اعجاز شاہ کی جگہ مرکزی وزیرِ داخلہ بننے میں کام یاب ہو گئے تھے اور سعد حسین رضوی اور تحریکِ لبیک کے ساتھ مذاکرات کی بھاری ذمہ داری انہوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا لی۔ ان مذاکرات میں مذہبی امور کے وفاقی وزیر نورالحق قادری بھی شیخ رشید کے ساتھی تھے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

تحریک لبیک نے حکومت کو ڈیڈلائن دے دی کہ اگر 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کو واپس نہ بھیجا گیا تو وہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں گے اور وہاں پہنچ کر دھرنا دیں گے۔

اس دوران وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان مسلسل دہراتے رہے کہ خارجہ پالیسیاں چند لوگوں کے کہنے پہ نہیں تبدیل کی جا سکتیں۔ فرانس سے احتجاج کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ ہم عالمی فورمز پر معاملے کی نزاکت کے بارے میں مغربی دنیا کو آگاہ کریں اور ان سے مطالبہ کریں کہ مسلمانوں کے آخری نبیﷺ کی شان میں گستاخی سے پوری اُمتِ مسلمہ کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، لہٰذا آپ ایسی سرگرمیوں سے باز رہیں۔

عمران خان نے دوسرا طریقہ یہ بتایا کہ تمام اسلامی ملکوں کو فرانس پر دباؤ ڈالنے کے لیے قائل کرنا ہوگا۔ تحریک لبیک جس طرح مطالبہ کر رہی ہے اس پر عمل کرتے ہوئے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے سے پاکستان مشکل میں گرفتار ہو جائے گا۔ ایک تو ایف اے ٹی ایف کی فہرست سے پاکستان نکلنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس فہرست سے نکلنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فرانس ہی ہے کیونکہ فرانس پاکستان کی اس یقین دہانی پر مطمئن نہیں ہو رہا کہ پاکستان دہشت گرد گروہوں، تنظیموں اور افراد کی مالی معاونت میں ملوث نہیں ہے۔ عمران خان نے اپنے بھاشن میں یہ بھی قوم کو سمجھایا کہ فرانس کے کان بھرنے کے لیے بھارت ہمہ وقت چوکس رہتا ہے کیونکہ بھارت اور فرانس آج کل بہت قریب آ رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے مابین ہونے والی تجارت کا حجم بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔

عمران خان کے بقول ایک اور قباحت یہ تھی کہ ہماری فرانس کے ساتھ تجارت متاثر ہو گی اور صرف فرانس کے ساتھ ہی کیوں، پورا یورپ فرانس کے ساتھ کھڑا ہو گا اور یوں ہم اپنا ہی معاشی نقصان کر بیٹھیں گے۔ اس لیے فرانس کے بائیکاٹ والا مطالبہ قطعاً غیر دانش مندانہ ہے جسے کسی صورت خاطر میں نہیں لایا جا سکتا۔

عمران خان کی حکمت سے بھرپور ان باتوں سے لگ رہا تھا کہ وہ واقعی خاصے پُرعزم ہیں اور تحریک لبیک کے ہاتھوں کسی صورت بلیک میل نہیں ہونے کے، مگر عمران خان اکیلے تو اس ملک کے والی وارث تھے نہیں۔ چنانچہ وہ یہ بھاشن دے کر اور اپنی جانب سے مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کر کرا کے جا کر سوئے ہی تھے کہ پتا چلا شیخ رشید نے تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات کے دوران اس مسئلے کو کسی اور ہی طریقے سے حل کر لیا ہے۔ یہ طریقہ واضح طور پر وزیر اعظم پاکستان کے طریقے سے نا صرف مختلف تھا بلکہ ان کی حکمتِ عملی سے یکسر متضاد بھی تھا۔ عمران خان نے اپنے بھاشن میں جتنی تلقین و تبلیغ کی تھی شیخ رشید نے اس پر سرے سے کان ہی نہ دھرا تھا۔

اس دوران تحریک لبیک کا لاہور میں احتجاج شدت اختیار کر چکا تھا۔ انہوں نے کئی سڑکیں تو روکیں ہی، ساتھ ہی پولیس کے جوانوں کو پکڑ کر مارنا پیٹنا بھی شروع کر دیا۔ 4 سے 5 پولیس اہلکار جاں بحق بھی ہوئے اور درجنوں زخمی ہو گئے۔

بات یہیں نہ رکی، بلکہ تحریک لبیک کے جاں نثاروں نے لاہور میں ایک پولیس سٹیشن پر دھاوا بول کے تھانہ انچارج سمیت ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا اور تھانے کے سارے عملے کو یرغمال بنا لیا۔ پولیس نے ردعمل کے طور پر مختلف شہروں سے تحریک لبیک کے کئی حامیوں کو گرفتار کر لیا۔ ملک ایک افراتفری اور غیر یقینی کی فضا کی بے بس تصویر بن گیا۔ عالمی میڈیا نے اس سارے معاملے کو بھرپور اچھالا۔

بھارت کیوں پیچھے رہتا، اس نے فوری فوری بیان داغے کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے یہاں چند مذہبی جنونی اکٹھے ہو کر پورے ملک کو جام اور انتظامیہ کو آختہ کر سکتے ہیں، اب یقین آ گیا؟ فرانس نے بلاتامل پاکستان سے اپنے شہریوں کو ایک دم واپس بلا لیا۔

عمران خان کے زبانی جمع خرچ والے 'شاندار مارکہ وژن' کے برعکس شیخ رشید نے معاملے کو جس طرح سلٹایا، پورا ملک اس پہ حواس باختہ رہ گیا۔ مذاکرات کے بعد جو باتیں شیخ رشید کے مختصر ویڈیو بیان میں سامنے آئیں ان کا خلاصہ یہ تھا کہ حکومت پاکستان نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ تحریک لبیک کے تمام مطالبات مانتے ہوئے ان کے گرفتار کارکنوں کو فوری طور پر رہا کرنے پر تیار ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کارکنوں کے خلاف درج تمام مقدمات، چاہے وہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیے گئے تھے، سب فوری طور پر ختم کر دیے جائیں گے اور تحریک کے سپوٹروں سے گزارش ہے کہ شانتی بنائے رکھیں اور گھروں کو لوٹ جائیں، باقی مطالبات بھی مان لیے جائیں گے۔

اس 'افہام و تفہیم' میں حکومتی ٹیم نے کہیں بھی ہلکا سا بھی شائبہ نہیں ہونے دیا کہ مذاکرات کے دوران حکومت نے بھی کوئی مطالبہ تحریک لبیک کے سامنے رکھا تھا اور جس پر بات ہوئی یا جو منظور ہوا یا نامنظور ہوا۔ کوئی چکر ہی نہیں۔ حکومت کے کسی بھی ایجنڈے میں، یا صلح نامے میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا تھا کہ جو پولیس اہلکار ان جھڑپوں میں جاں بحق یا زخمی ہوئے ہیں ان کے خاندان والوں یا ان کے لیے کیا احکامات ہیں۔ اس پہلو پر بھی کوئی سطر نہ شامل کی جا سکی کہ اس چپقلش کے دوران بحیثیتِ ادارہ پولیس کا مورال جس طرح زخمی ہوا ہے، اسے پھر سے گزارے جوگا کرنے کے لیے کیا اقدامات سوچے گئے ہیں۔

کسی حکومتی اہلکار نے کچھ نہ بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کا گلا اپنے عالی شان بھاشن میں جو تجاویز پیش کر کر کے بیٹھ گیا ہے ان تجاویز کو کیوں اور کس کے کہنے پہ خاطر میں نہیں لایا جا سکا۔ اور نہ کہیں اس بات کا حوالہ تھا کہ ریاست پاکستان کب تک اپنے بوئے ہوئے کانٹوں سے اپنے ہی ہاتھ لہولہان کرتی رہے گی۔ کہیں کسی نے یہ نہیں بتانا سننا گوارا کیا کہ عمران خان کے ابال کا کس نے اور کس طرح سے علاج کیا اور نہ کسی نے یہ بتانے کی زحمت گوارا کی کہ قوم سے خطاب میں جو آدمی ارسطو بنا ہوا تھا اب مُنہ لٹکائے گُونگا کیوں بنا بیٹھا ہے۔

تحریک انصاف حکومت نے جس بے احتیاطی، کج فہمی اور نا سمجھی سے اس مسئلے کو قالین کے نیچے سرکا دیا، تو بیش تر لوگوں کے لیے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں تھا کہ تحریک لبیک کا یہ جن آنے والے سالوں میں بھی وقتاً فوقتاً اور حسب ضرورت و حسب ذائقہ مختلف حکومتوں اور ریاستی اداروں کو اسی انداز میں بلیک میل کرتا رہے گا۔ کیونکہ جب اس مسئلے سے نمٹنے کی گھڑی آتی ہے تو ہمارے حکمران تقریروں میں تو ارسطو ضرور بنتے ہیں مگر عمل کے وقت جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔