مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا
"I object to violence because when it appears to do good, the good is only temporary; the evil is permanent "
ملک خداداد پاکستان میں 70 سال سے ایک روایت چلتی آرہی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ دفاعی اداروں کے ہاتھ میں رہی ہے لیکن انکی پالیسی سے پیدا ہونے والے حالات کا خمیازہ ہمیشہ عوام نے بھگتا ہے
بقول Georges Celemenceau
" War is too important to be left to the generals"
تعلیم، صحت، روزگار اور امن سے محروم بے آواز عوام جو پہلے ہی گزشتہ چالیس سالہ سے جنرل ضیاء الحق کے تجربوں کے تباہ کاریوں اور بربادی کو سہہ رہی ہے ایک بار پھر ناصرف ایک اور سرد جنگ کیلئے لانجنگ پیڈ اور خام مال کے طور پر پیش کی جارہی ہے بلکہ ارباب اختیار اور فیصلہ ساز قوتوں نے یہ ٹھان لی ہے کہ پاکستان نے ایک بار پھر دوسروں کی جنگ کو پاکستان کے گلی کوچوں میں لڑنا ہے۔
طالبان جن کی ابتداء ہی امریکہ اور روس کی سرد جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ہوئی ایک بار پھر انہیں بڑی شان و شوکت اور ریڈ کارپٹ کے ساتھ اسلام آباد میں خوش آمدید کہنے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔
جنگ کے خواہاں جنگی پالیسیوں کو ذاتی مالی فوائد سے مشروط کرکے پاکستان میں کچھ اور شوگر ملز یا پاپا جونز کی طرح کچھ اور بین الاقوامی کاروبار کے ڈھانچے تشکیل دے رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ 22 کروڑ عوام کو کیا جاننے کی ضرورت ہے اور کیوں جاننے کی ضرورت ہے؟
جو لوگ اسلام آباد میں بیٹھ طالبان کی ترجمانی کرتے ہیں یا طالبان کو پاکستان کیلئے بہتر بتاتے ہیں انہیں شاید ہی یہ اندازہ ہو کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پاکستان کی ہر گلی کوچے میں اس سے کس قدر سماجی، سیاسی، مذہبی اور نفسیاتی اثرات پڑنے والے ہیں؟ یا شاید انہیں یہ پروا ہی نہیں ہے کہ عوام بھگتے جو بھگتے انہیں اس سے کیا لینا دینا؟
طالبان نظریاتی اور مذہبی طور پر ایک اکثریت پسند دیوبندی مکتبہ فکر کا ایک جہادی گروپ ہے جو اپنی تعبیر اور تشریح کردہ شریعت کو حتمی سمجھتے ہیں ان کے نزدیک انکی تعبیر و تشریح کردہ شریعت حتمی ہے اور جو بھی چاہیے جس بھی مکتبہ فکر یا فرقے کی تشریح یا تعبیر کرتا ہے وہ فاسق و فاجر ہے اور فاسق و فاجر کی اس کٹیگری میں بیت اللہ شریف کے مفتی اعظم، اسلام کے قدیم ترین مدرسے جامعہ اظہر مصر، جملہ علماء کرام ہندوستان، ملیشیاء، انڈونیشیاء، ایران، افغانستان، پاکستان الغرض وہ تمام علماء جو طالبان کی تعبیر و تشریع کردہ شریعت کو مسترد کرتے ہیں یا اسے ناقص قرار دیتے ہیں طالبان کی نظر میں وہ فاسق و فاجر ہیں اور بعد از رجوع ہی وہ معافی کے لائق ہیں ورنہ انکے خلاف قتال جائز ہے۔
اب اس فاسق و فاجر کی کیٹیگری میں پاکستان کے محبوب ترین بین الاقوامی لیڈر عزت مآب جناب طیب اردوان کو بھی طالبان نے شامل کرلیا ہے۔
اب بطور ایک عام پاکستانی کہ کیا یہ سوال نہیں بنتا کہ ہمارے گلی محلوں میں تو پہلے ہی سے فرقہ ورانہ نفرتیں عروج پر ہیں تحریک طالبان جو نظریاتی، فکری ڈھانچے کے لحاظ سے 100 فیصد افغان طالبان کی طرح ہیں اور بزور شریعت کے نفاذ کے لیے بظاہر میدان عمل میں ہیں کیا انہیں ان سے تقویت نہیں ملے گی؟ اسکے علاوہ بھی آئے دن کفر کے فتووں اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے واقعات عام ہیں جب ایک اکثریت اور پرتشدد دیوبندی گروپ طالبان کی افغانستان میں حکومت آئے گی اور وہ صاحب اختیار ہونگے تو پاکستان کی آبادی جسکی دوسری بڑی اکثریت دیوبندی مکتبہ فکر سے ہے کیا انکے ذہین، فکر، عمل اور ایمانی جذبے میں فرق نہیں آئے گا؟ کیا پاکستان میں فرقہ پرستی ایک تباہ کن شکل اختیار نہیں کرے گی؟ یا پھر ہم یہ سوچ لیں کہ 2 ہزار 640 کلومیٹر طویل بارڈر کے ہوتے ہوئے بھی افغانستان کے حالات کا پاکستان کے حالات پر فرق نہیں پڑے گا؟
ایک عجیب منطق یہ بھی ہے کہ آپکو آئے دن سنائی دیتا ہوگا کہ ہندوستان اور ہالی ووڈ کی فلموں کو دیکھنے سے پاکستان کے بچوں کی سوچ اور ذہین پر برا اثر پڑتا جارہا ہے اور انہیں ہر صورت بند کردیا چاہیے یہاں تک کہ انصار عباسی صاحب پاکستانی ٹی وی پر چلتے کسی اشتہار پر بھی اعتراض کردیتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا نہیں بلکہ ایسا ہی ہے کہ فطرت" انسان جو کچھ دیکھتا اور سنتا ہے اسکا اثر انسان کے دماغ پر ہوتا ہے اور وہ اسے عمل میں ڈھالتا ہے۔
اب بطور پاکستانی عوام کے ہم نے یہ سوچنا ہے کہ کیا جب کابل میں سرے عام عورتوں کو کوڑے مارے جائینگے، سرعام سر قلم کیے جائینگے، سر عام پھانسی دی جائیگی اور شرعام لائیو پاکستانی بچے یہ سب مین سٹریم میڈیا پر ناہی سہی لیکن سوشل میڈیا پر لائیو دیکھینگے تو کیا ان پرتشدد واقعات کو لائیو دیکھ کر وہ متاثر ہوئے بغیر رہ سکینگے؟ کیا یورپ کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھتے مسلمان بیٹیوں اور بیٹوں سے پاکستانی بچے زیادہ سوچ کے ملک ہیں جو داعیش کے پاپولر بیانئے اور تشدد کو دیکھ کر یورپ چھوڑ کر انکے ساتھ جاملے؟ اور ستم ظریفی یہ کہ دوسری طرف جب اوریا جان مقبول، زید حامد، انصار عباسی اور شاہ محمود قریشی صاحب طالبان کی تعریفوں کے پل بھی باندھ رہے ہوں اور پاکستانی ٹی وی پر بیٹھ کر انہیں ولی اللہ اور پہنچے ہوئے لوگ بھی بتائے جارہے ہوں؟
کسی بھی سوچ اور نظریے کو بارڈرز تک ناہی محدود رکھا جاسکتا ہے اور ناہی یہ ہوسکتا ہے کہ اس نظریے والے گروہ سے آپ یہ امید رکھیں کہ اچھائی تو صرف آپ تک آئے اور اس نظریے سے پیدا شدہ تباہ کاریوں سے وہ ہمیں محفوظ رکھ سکیں۔ ہندوستان کا اکثریت پسند مودی اگر نقصان دہ اور تباہ کن ہے تو کابل میں بیٹھا اکثریت پسندی طالب کیسے ٹھیک ہوسکتا ہے؟ ہندوستان کی آر ایس ایس بری تو افغانستان کے طالبان کیسے ٹھیک ہوسکتے ہیں جبکہ دونوں اپنے نظریات کو تشدد اور بزور بازو لاگو کرنے کے ناصرف حق میں ہیں بلکہ سال ہا سال سے یہ کر بھی رہے ہیں۔
کیا پاکستان کے بچوں کیلئے ایک جمہوری اور ترقی یافتہ افغانستان ایک بہتر مثال بن سکتا ہے یا ایک ایسا افغانستان جہاں زندگی ایک پرتشدد گروہ کے ہاتھوں اپاہج ہو؟
افغانستان میں پاکستان دوست حکومت کا خیال برا نہیں ہے اور ناہی یہ کوئی ناجائز سوچ یا فکر ہے۔ لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ اشرف غنی تو چار سال رہے گا اور اگلے الیکشن کے بعد وہ افغانستان کے صدر نہیں رہینگے کیوں نا افغانستان کے لوگوں کے کا اعتماد حاصل کرکے انہیں اپنائیت کا احساس دلاکر انکے دل جیتے جائیں ایک طویل مدت سٹریٹجی بنائی جائے اور آگے بڑھتے پھولتے جمہوری افغانستان کو مزید مضبوط ہوتے دینے اور وہاں کسی بھی اکثریت پسند پرتشدد گروپ کی مخالفت کرکے افغانستان کی عوام کو انکی اپنی مرضی اور حال پر چھوڑ دیا جائے۔ تاکہ پڑوس میں پڑے 2 ہزار 640 کلومیٹر مشترک بارڈر رکھنے والے پڑوسی افغانستان سے ہمارے بچے علم، روزگار، آرٹ، موزیک ، بھائی چارے اور جمہوریت کا درس لے سکیں؟ پڑوس کو نہیں بدلہ جاسکتا ہاں البتہ انکی سوچ کو بدلہ جاسکتا ہے۔
22 کروڑ پاکستانی عوام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ پھر ایک طویل جنگ و جدل اور تباہی کی طرف بڑھتے حکمرانوں سے یہ سوال پوچھیں کہ آخر کیوں آپ نے یہ قسم کھائی ہے کہ آپ نے ماضی سے نہیں سیکھنا؟
22 کروڑ عوام نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا ہے اور آتی تباہی سے اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ کرنا ہے کیونکہ اب آپ ضیاء الحق و اختر عبدالرحمن کو چاہیے جتنا بھی برا بھلا کہہ لیں لیکن آپ انکی دی ہوئی میراث کو بدل نہیں سکتے لیکن آج اپنی آواز اٹھا کر اور سوال پوچھ کر کم از کم اپنی آنے والی تباہی سے آنے والی نسلوں کو محفوظ کرسکتے ہیں۔
یہ پاکستان کی عام عوام پر منحصر ہے کہ وہ خدانخواستہ ایک ایسی نسل پاکستان میں پروان چڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں جو اپنی مرضی کی شریعت بزور بازو اسلام آباد پر لاگو کردیں یا ایک پرامن، تعلیم یافتہ اور جمہوری نسل جو اقوام عالم میں علم، ذہانت اور قابلیت سے پاکستان اور اسلام کا پرچم بلند کرسکیں؟
یہ پاکستان کی تمام جمہوری پارٹیوں، سول سوسائٹی، انٹلیکچولز اور سماجی شخصیات کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کے شہر شہر میں جلسے کریں اور سیمنار منعقد کرکے اس حوالے سے آگاہی پیدا کریں اور آتی تباہی کا سدباب کریں۔
بقول
Winston Churchill
" Those who failed to learned from history are doomed to repeat it"