پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے شعبہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے حالیہ پریس کانفرنس میں انتہائی جامع انداز میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ترجمانی کرتے ہوئے پاکستان کی موجودہ صورتحال پر دفاعی قیادت کا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ بھارتی آرمی چیف کو کرارا جواب دینے کے ساتھ ساتھ آصف غفور نے بھارت سے پر امن تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا ایک بار پھر اظہا کیا جو کہ انتہائی مثبت اقدام ہے۔
آصف غفور نے پشتون تحفظ مومنٹ کو بھی وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس جماعت نے سرخ لائن عبور کرنے کی کوشش کی تو پھر ریاست کو مجبوراً اپنی قوت کا استمال کرنا پڑے گا۔ آصف غفور کی اس بات سے بھی اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ پشتون تحفظ مومنٹ کی مانگیں بھلے ہی جائز ہوں لیکن ریاستی اداروں کے خلاف پشتون بیلٹ میں نفرت اور اشتعال پھیلا کر یہ جماعت افغانستان کی گریٹ گیم میں پاکستان کے سٹریٹیجک حکمت عملی پر اثر انداز ہو رہی ہے اور فوج نے ابھی تک انتہائی صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف کسی بھی قسم کی ریاستی طاقت کا استعمال نہیں کیا ہے۔ بصورت دیگر مہاجر قومی مومنٹ اور تحریک لبیک کا انجام ہمارے سامنے ہے جنہیں ریاست نے چند گھنٹوں اور دنوں میں منظرنامے سے غائب کر ڈالا۔
آصف غفورکی پریس کانفرنس کے اس حصے سے تو غالباً ہر ذی شعور اتفاق کر سکتا ہے لیکن پریس کانفرنس کا وہ حصہ جس میں پاکستان کے ترقی نہ کر پانے کی وجوہات بیڈ گورننس، تعلیمی اور قانونی نظام میں خرابیاں، بری معاشی پالیسیاں اور شدت پسندی کا فروغ بتائی گئیں اس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں چونکہ تقریباً 30 برس تک فوج براہ راست اقتدار میں رہی ہے جبکہ باقی عرصے میں یہ پس پشت رہ کر حکومتی معاملات پر اثرانداز ہوتی رہی ہے اس لئے بیڈ گورننس، معاشی بدحالی اور دیگر خامیوں کی ذمہ داری سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ دفاعی اسٹیبلشمنٹ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ جبکہ شدت پسندی کا آغاز جنرل ضیاالحق کے دور میں روس کے خلاف جنگ میں امریکی اتحادی بن کر اور جہاد کا ریاستی بیانیہ تشکیل دینے کے باعث ہوا۔ بعد میں حافظ سعید، مسعود اظہر، ملک اسحاق جیسے کئی شدت پسندوں کی سرپرستی بھی کی جاتی رہی جس کے نتیجے میں وطن عزیز نے شدت پسندی کا فروغ دیکھا۔ چونکہ ان اندرونی امور اور خارجی محاذ پر ہمیشہ سے دفاعی اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری رہی ہے اس لئے کسی بھی طور شدت پسندی کا مؤجب منتخب جمہوری حکومتوں کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ گو موجودہ دفاعی قیادت کا ان بیانیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس نے ان بیانیوں کو تبدیل کرتے ہوئے جرات مندی کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان کو شکست دیتے ہوئے ملک میں امن قائم کیا ہے لیکن ماضی کے بیانیوں کے باعث شدت پسندی کے فروغ میں سابقہ آمروں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح آصف غفور نے میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میڈیا ریاست کا اہم ستون ہے اور یہ اگلے 6 ماہ تک پاکستان کے بارے میں مثبت خبریں اور تجزیے پیش کرے تاکہ پاکستان کا تشخص دنیا بھر میں ایک مثبت ریاست کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ اس بات سے بھی اتفاق کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ صحافی کا کام امیج بلڈنگ یا برانڈنگ کرنا نہیں ہوتا، اس کام کے لئے پبلک ریلیشن مینیجرز اور برانڈ مینیجرز رکھے جاتے ہیں جو ریاست کے بیانیے کو پوری دنیا میں مشتہر کرنے کے علاوہ رائے عامہ کے لاشعور پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ جیسے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ایڈورڈ برنیز کو امریکہ نے اپنے امیج کو بہتر بنانے کیلئے ملازمت پر رکھا تھا۔ ایک صحافی کا کام خبر دینا، تجزیہ دینا ہوتا ہے اور اس دوران اس کا پیشہ اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے معروضی اور حقائق پر مبنی تجزیے اور آرا پیش کرے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ صحافی خبر دیتے یا تجزیہ کرتے وقت ریاستی بیانیے کو مدنظر رکھے اور اس کے حق میں خبر یا تجزیہ پیش کرے۔
غالباً ہماری دفاعی اسٹیبلشمنٹ جس نے بہت حد تک ماضی کی اسٹیبلشمنٹ کی غلط پالیسیوں کوتبدیل کیا ہے، اسے صحافیوں اور صحافت سے متعلق اپنی اس سوچ یا حکمت عملی کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کے بیانیے کو صحافیوں اور دانشوروں سے مشتہر کروانے کا تجربہ ہم گذشتہ کئی ادوار میں دیکھ چکے ہیں۔ الطاف گوہر، قدرت اللّٰہ شہاب، صدیق سالک، طارق اسماعیل ساگر، نسیم حجازی، ہارون الرشید، مبشر لقمان، سمیع ابراہیم، صابر شاکر، حامد میر اور اوریا مقبول جان جیسے کئی صحافیوں اور دانشوروں نے یہ فریضہ بھرپور طریوے سے انجام دیتے ہوئے ریاست کے بیانیے کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری صحافت اور دانش کا معیار زوال پذیر ہو گیا اور وطن عزیز کے قوم پرست طبقات کے علاوہ اندرونی اور بیرونی سطح پر ریاست کاسافٹ امیج اور تشخص منوایا نہیں جا سکا۔
ویسے بھی دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتیں کسی بھی ملک کے بارے میں رائے قائم کرنے کیلئے محض صحافیوں اور دانشوروں پر انحصار نہیں کرتیں اور اس ضمن میں ان کے پاس اپنا ایک مربوط نیٹ ورک ہوتا ہے جس کی معلومات کی روشنی میں وہ کسی ملک کے بارے میں مثبت یا منفی آرا قائم کرتی ہیں۔ اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی البتہ ریاستوں کےسافٹ تشخص کو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور ریاست کو اس بنیاد پر بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنے والی ریاست کے طور پر جانا پہچانا جاتا ہے۔ گو ابھی بھی ہمارے ملک میں آزادی اظہار پر قدغنیں عائد ہیں اور صحافیوں کو کبھی ملازمتوں سےنکال کر یا ان پر پابندیاں لگا کر انہیں معاشی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن پھر بھی پاکستان آزادی اظہار رائے کے معاملے میں مسلم دنیا کے دیگر ممالک سے ہزار درجے بہتر ملک ہے۔ آپ ترکی، سعودی عرب یا ایران کی مثالیں دیکھ سکتے ییں جہاں صحافی ریاستی بیانیوں کے خلاف لکھنا اور بولنا تو دور کی بات اس بارے میں سوچنے کی ہمت بھی نہیں کر پاتے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ہماری دفاعی اسٹیبلشمنٹ اس نکتے کو اجاگر کرتے ہوئے صحافت پر عائد نادیدہ قدغنوں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور دنیا کو یہ نقطہ باور کروائے کہ پاکستان آزادی اظہار رائے کے معاملے میں اسلامی ممالک کی فہرست میں صف اول کا ملک ہے۔ ریاستی بیانیے کو فروغ دینے اور اسے مشتہر کرنے کے لئے پبلک ریلیشین کے امور کے ماہرین کو ہائر کرے اور صحافت کے شعبے سے یہ توقعات وابستہ کرنا چھوڑ دے کہ یہ شعبہ صحافت کے بجائے تعلقات عامہ کا فریضہ انجام دے گا۔
آصف غفور صاحب نے ملک کے اندرونی اور بیرونی خطرات کا ذکر بھی کیا اور اس ضمن میں اندرونی فالٹ لائنز کا تذکرہ کیا جنہیں بیرونی دشمن استعمال کر کے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ممکن ہے جنرل صاحب اور ان کے ادارے کی معلومات اس ضمن میں درست ہوں اور بہت سے اندرونی عناصر بیرونی قوتوں کا آلہ کار بنتے ہوئے ہائبرڈ وار میں بطور چارہ استعمال ہو رہے ہوں۔ لیکن اس کا تدارک ہرگز بھی قدغنوں یا سینسر کی صورت میں نہیں کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں اس امر پر بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ وجوہات کیا ہیں جن کے باعث عوام میں دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کہیں سیاسی امور میں پس پشت مداخلت دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے اچھے اقدامات کو فراموش کروا کر اسے کسی خاص جماعت کے ہمدردوں میں غیر مقبول اور اس سیاسی انجئینرنگ سے مستفید ہونے والی جماعت کے ہمداران میں مقبول بنانے کا باعث تو نہیں بن رہی؟
دیگر پریس کانفرنسوں کے برعکس میجر جنرل آصف غفور کی یہ پریس کانفرنس عمدہ اور مربوط تھی لیکن اگر اس پریس کانفرنس میں صافیوں کو سب اچھا ہے دکھانے کی تاکید نہ کی جاتی تویہ مزید مؤثر اور بہترین قرار دی جا سکتی تھی۔