ایک جرم کا ہرجانہ، دوسرے جرم کے جرمانے میں بھر دیا۔ ’مافیا‘ اسے کہتے ہیں

پاکستانی ریاست کے لاڈلے بزنس مین ملک ریاض آج کل خوب خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود سوشل میڈیا اور چند ایک صحافی خواتین و حضرات بار بار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ احتساب کا دعویٰ کرنے والی حکومت کیا ملک ریاض کے خلاف کارروائی کرے گی؟

ملک ریاض صاحب نے حال ہی میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے عدالت کے باہر ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے وہ 38 ارب روپے کا ہرجانہ ادا کرنے کو تیار ہو گئے۔ اس خطیر رقم کو برطانیہ کے قومی ادارہ برائے انسدادِ جرائم کے بقول ریاستِ پاکستان کو بھییجا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر جو کہ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے متعدد وعدے کر چکے ہیں، نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ یہ رقم واپس آ چکی ہے۔

لیکن اس رقم کی واپسی کے ساتھ انہوں نے بڑا اعلان یہ کیا کہ یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جا رہی ہے کیونکہ ملک ریاض صاحب نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سندھ میں زمینوں کی خورد برد کرنے کے الزام میں 460 ارب روپے ہرجانہ بھرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔



یہاں تین سوال انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
سوال نمبر 1: جو رقم پاکستان کو Unexplained wealth، یعنی ایسی دولت جس کا حساب کتاب نہ دیا جا سکتا ہو، کی مد میں واپس ملی ہے، اس کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک الگ کیس کے ہرجانے کے طور پر کیسے جمع کرایا جا سکتا ہے؟

سوال نمبر 2: آخر ملک ریاض صاحب نے اربوں روپے برطانیہ منتقل کیسے کیے؟ اور ان کا ٹیکس گوشواروں میں حساب کیوں نہ دیا؟ اگر یہ واقعی ان کے منافع بخش جائیداد کے کاروبار سے حاصل شدہ رقم تھی تو پاکستان میں اور کتنے ایسے بزنس مین ہیں جو اربوں منافع کما لیں اور اس کو ڈکلیئر بھی نہ کریں؟

سوال نمبر 3: کیا سپریم کورٹ آف پاکستان اس سودے کو قبول کر لے گی، اور کیا جرائم کی مد میں واپس ہونے والی رقم کو بحقِ سرکار ضبط نہیں ہونا چاہیے تاکہ وہ پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو سکے؟

دیکھنا یہ ہے کہ قومی احتساب بیورو جس کے افسران اور سربراہ آئے دن ملک سے وفاداری کا یقین دلاتے ہیں، کیا وہ اس پر از خود کارروائی کریں گے۔ ابھی تک تو ایسے کوئی آثار نہیں دکھائی رے رہے۔

یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے چند سال قبل ملک ریاض صاحب کے بارے میں بڑی سخت باتیں کی تھیں۔

https://twitter.com/kaikausmir/status/1203011896250699777

اب شیخ رشید صاحب نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ کابینہ کے ارکان کو حکم دیا گیا کہ وہ اس مسئلے پر لب کشائی نہ کریں۔ نئے پاکستان کی جمہوریت میں تو مقدس ہستیوں اور اداروں پہ سوال اٹھنے چاہئیں، لیکن یہاں تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جبھی تو کرپشن کے خلاف سب سے بڑے مجاہد جناب عمران خان صاحب بھی مجبور ہیں کہ اس معاملے کو ٹھنڈا ہی رکھیں۔

اور اس سے بڑھ کر وہ سورما صحافی جو غضب کرپشن کی عجب کہانیاں سناتے تھکتے نہیں تھے، وہ بھی ملک ریاض کی حمایت میں پیش پیش ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ ملک ریاض صاحب پاکستان کی تمام بڑی سیاسی قوتوں پر مہربان رہے ہیں۔ لاہور شہر میں بلاول ہاؤس پاکستان پیپلز پارٹی کو ان کی دین ہے۔ آصف علی زرداری کے ساتھ ان کے قریبی مراسم ہیں۔ نواز شریف کے خاندان کا فلیٹ انہوں نے ہی خریدا۔ اور ان کی مہربانیاں پاکستان تحریک انصاف پر بھی رہی ہیں، اور ہمارے باخبر ذرائع کے مطابق 2011 کا تاریخی جلسہ جس نے پی ٹی آئی کی کایہ پلٹ دی، اس کے انتظام و انصرام میں بھی ملک صاحب کا کردار تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور ان کے بیٹے پر کی جانے والی عنایتیں پبلک ریکارڈ پر موجود ہیں۔ افواجِ پاکستان کے سابق افسران کی ایک فوج ظفر موج بحریہ ٹاؤن کی ملازمت میں ہے۔ میڈیا کے بڑے بڑے مشہور چہرے ان کی نوازشوں سے فیضیاب ہو چکے ہیں۔



اب ان حالات میں ان کا احتساب تو قریب قریب ناممکن ہے۔ اور اب یہ عمران خان کا ایک بڑا امتحان کہ وہ ہمیشہ کی طرح یوٹرن لے کر اس معاملے پر مٹی ڈالتے ہیں یا واقعتاً طاقتور شخصیات اور اداروں کا احتساب عمل میں لاتے ہیں۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام ان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔