ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن میں ووٹ شخصیت کی بنیاد پر ڈالے جاتے ہیں، اس میں پارٹی کا اتنا عمل دخل نہیں ہوتا۔ صوبہ بھر میں بلدیاتی الیکشن کا غوغا ہے جس کے لئے عوام انتظار میں رہتے ہیں کہ کب بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں اور وہ کب اس میں حصہ لیں۔
عام انتخابات کی نسبت اس میں زیادہ جوش و جذبہ پایا جاتا ہے کیونکہ امیدواروں تک لوگوں کی رسائی ہوتی ہے۔ وہ دیگر انتخابات کی طرح خاص لوگ نہیں ہوتے بلکہ عام لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ شادی غمی میں شریک ہوتے ہیں۔
زیادہ تر ان انتخابات میں اس بات کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ امیدوار کا لوگوں کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟ وہ ان کی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے یا نہیں۔ وہ سوشل ورک میں کیسا ہے۔ خاندان بھی بہت زیادہ دیکھا جاتا ہے کہ علاقے میں امیدوار کا خاندان کیسا ہے اس کی عزت کا مقام کیسا ہے۔ پڑھا لکھا ہے یا نہیں۔
اگر بندہ غریب ہے اور ایماندار ہے، علاقے کے لئے کچھ کرنے کی لگن ہے تو اہالیان علاقہ پارٹیوں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور اس بندے کو کامیاب کراتے ہیں۔
ہمارے سامنے بہت سے بلدیاتی انتخابات کا رزلٹ ہے جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ برسر اقتدار پارٹی کو بھی بہت سے علاقوں میں شکست فاش ہوئی اور عوام نے پرانے چہروں کو بھی مسترد کیا۔
جو لوگ جیت کر کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔ اگلے انتخابات میں اُن کی سیٹ کنفرم ہوتی ہے اور سیاسی پارٹیاں بھی انہیں پھر اپروچ کرتی ہیں۔ اس دفعہ بھی ہر گاؤں اور شہر میں بلدیاتی انتخابات کا ایک طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے۔ برسر اقتدار پارٹی یعنی پاکستان تحریک انصاف جس کا موٹو ہی تبدیلی اور انصاف ہے، اُس نے ہر جگہ پر بے انصافی کی۔ بہت سے اضلاع میں نظریاتی ورکرز نظر انداز کر دیئے گیے ہیں اور ان امیدواروں کو سامنے کیا گیا جن کے ایم این ایز کے ساتھ تعلقات تھے اور وہ مختلف قسم کے کاموں میں ان کے کام آتے ہیں۔
اس میں سفارش کے ساتھ ساتھ پیسوں کا بھی عمل دخل ہوا۔ وزیراعلیٰ محمود خان کو جب ٹاسک دیا گیا کہ اتنخابات کے لئے امیدوار کھڑے کردیں تو اس وقت یہ بات سامنے آئی کہ اب انصاف کی بے توقیری ہوگی۔
جب وزیراعلیٰ نے ایم این ایز کو ٹاسک دیا تو انہوں نے وہی کیا جو ہمیشہ ہر پارٹی میں نظریاتی ورکرز کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے رشتہ داروں، بھائیوں اور دوستوں میں ٹکٹ بانٹ دیئے۔
خیر یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ انہیں فائدہ ملتا ہے یا نہیں یا ان انتخابات سے عوام کی قسمت بدل جائے گی یا نہیں کیونکہ تین سالوں میں مرکز اور صوبوں میں حکومت عوام کو فائدہ نہیں دے سکی تو یہ انتخابات کیا فائدہ دیں گے۔
یہ تو صرف نام کے ہی کونسلرز اور مئیر ہوں گے۔ باقی ان کے پاس اتنا زیادہ فنڈ نہیں ہوگا نہ یہ اتنے زیادہ طاقتور ہیں جس طرح جنرل مشرف کے دور میں یہ ناظمین اسسٹنٹ کمشنر ،ڈپٹی کمشنرز پر بھاری تھے اور یہ بیوروکریٹ ان کے ماتحت کے طور پر کام کرتے تھے۔ اب دیکھتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے والے ملک اور صوبے کی قسمت کہاں لے جاتے ہیں؟
مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔