ڈاکٹر اکرام الحق کی کتاب 'پُھل ککراں دے' رنگ برنگی نظموں کا گلدستہ ہے

'پُھل ککراں دے' پروفیسر ڈاکٹر اکرام الحق کی حال ہی میں منظر عام پر آنے والی کتاب ہے جو تین سکرپٹس یعنی رومن، گورمکھی اور شاہ مکھی میں دستیاب ہے۔ اس کتاب میں 40 نظمیں ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاید یہ ان کی پہلی کتاب ہے۔

ڈاکٹر اکرام الحق کی کتاب 'پُھل ککراں دے' رنگ برنگی نظموں کا گلدستہ ہے

پروفیسر ڈاکٹر اکرام الحق اور مادام حذیمہ بخاری سے میں بالمشافہ زندگی میں صرف دو بار اسلام آباد کی کانفرنسز کے ہجوم میں ملی ہوں، وہ بھی اس سال 2023 میں، گو کہ فکری تعلق گذشتہ 20 سالوں سے قائم ہے اور اس کی شروعات تب ہوئی جب میں نے صنفی امتیاز کے تناظر میں ٹیکس کے نظام پر ایک کتاب لکھنی شروع کی تھی۔ ظاہر ہے ریسرچ کے لیے ٹیکس ایکسپرٹس کو لازماً شامل ہونا تھا۔ سول سروس سے بھاگی تھی لیکن ٹی وی کی برکات سے کچھ لوگ جانتے تھے اور پہچان بھی لیتے تھے لہٰذا سر تک رسائی ہو گئی۔ میں نے سر سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دے دیا یعنی وہ خود ریسپونڈنٹ نہیں بنے بلکہ مادام سے شناسائی کروا دی۔ میں ان دونوں کی مداح ہو گئی۔

ایک جگ دیکھ رکھا ہے۔ پاکستان کیا دنیا بھر میں اتنا کامیاب، مہذب اور پاورفل جوڑا شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔

ہم سب ماڈرن لوگ اس تلخ حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ بہت بڑے بڑے نام جو بہت روشن خیال اور شائستہ سمجھے جاتے ہیں، گھر میں اور اپنی بیگم کے ساتھ انتہائی بے حس اور پدرسری کی جیتی جاگتی مثال ہوتے ہیں۔

میں یہ بات اتنے وثوق سے اس لیے نہیں لکھ رہی کہ میں ایک 'ٹپیکل فیمنسٹ' ہوں اور مردوں کے خلاف ہوں بلکہ بہت دکھ اور شرمندگی سے اعترف کر رہی ہوں کہ ایسے کئی حضرات اور خواتین (کہ عورتیں بھی پیٹ ری آرکل patriarchal ہو سکتی ہیں) میرے قریبی جاننے والوں میں ہیں اور سماجی ترقی کی اس انڈسٹری میں بھی جس کے ساتھ میں تین دہائیوں سے وابستہ ہوں۔ یہ لوگ بڑی ذہانت سے اپنی دو رخی کو نبھا بھی رہے ہیں اور خوب کما بھی رہے ہیں۔

لیکن اس تحریر کی وجہ صنفی مسائل پر تبصرہ نہیں ہے بلکہ ایک ادنیٰ سا خراج عقیدت ہے میری طرف سے جس کو کوئی زبان مکمل طور پر نہیں آتی۔ لیکن جس کا پہلا عشق مختلف زبانوں کے ساتھ تھا کیونکہ کہیں پر یہ بات ذہن میں بیٹھ گئی تھی کہ ادب کو اس کی اوریجنل زبان میں پڑھنے کا جو لطف ہے وہ ترجمے میں نہیں۔ اور اس خیال کا اولین منبع گھر کے ماحول اور موپساں کے فرانسیسی افسانے اور امرتا پریتم کی پنجابی نظمیں تھیں جو گورمکھی رسم الخط میں تھیں۔ اسی طرح فریاد دریا کے پشتو گیت، الن فقیر کی شخصیت اور سندھی سحر یا پی ٹی وی پر فیض بلوچ کا لیلیٰ و لیلیٰ مجازی لیلیٰ اور عالم لوہار کی جگنی ان بہت ساری انسپیریشنز inspirations میں سے چند ایک تھیں جن کی بدولت میں کبھی بھی اردو والوں کے بدنام زمانہ تعصبات کا شکار نہیں ہوئی۔

'پُھل ککراں دے' پروفیسر ڈاکٹر اکرام الحق کی حال ہی میں منظر عام پر آنے والی کتاب ہے جو تین سکرپٹس یعنی رومن، گورمکھی اور شاہ مکھی میں دستیاب ہے۔ اس کتاب میں 40 نظمیں ہیں۔ اپنی ماں بولی میں شاید یہ ان کی پہلی کتاب ہے۔ ان کی انگریزی اور اردو کی تحریریں جو معاشیات اور دیگر مصائب پر ہیں، میری نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ شاعری اور ادب سے ان کی دلچسپی اور وارفتگی کا کچھ اندازہ فیض کی شاعری کے انتخاب اور مادام اور سر کے کیے گیے انگریزی تراجم سے ہوتا ہے جو وہ اپنی سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے شیئر کرتے رہتے ہیں۔

گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل، کہاں کی رباعی کہاں کی غزل کے مصداق حالات کے ستم اور دوسری ترجیحات نے سر سے شعر و ادب پر بات کرنے کی مہلت نہ دی۔ لیکن جب ڈاک میں 'محبتاں تے دعاواں دے نال' یہ نسخہ ملا تو ایک ہی نشست میں 40 رنگ برنگی نظمیں پڑھ لیں۔ کچھ تو دماغ میں کھب سی گئی ہیں جیسے کہ 'سفنے دی گل' اور 'چھاؤنی ریاست'۔

یہ سال اختتام پذیر ہونے کو ہے۔ پوری دنیا میں ظلم، بربریت، منافقت اور سماجی ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ وطن عزیز میں بھی اچھی خبروں اور مثالوں کا فقدان ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی سول سروس کے نوجوانوں میں انسٹنٹ شہرت، ٹوئٹر ستارہ بننے اور ڈپریشن کا جان لیوا حملہ بھی ایک ابھرتا ہوا مسئلہ ہے جس کا امپکٹ شاید ابھی سوچا بھی نہیں گیا۔

برسبیل تذکرہ ایک مفت مشورہ کہ لائسنس شدہ ڈاکٹر بھی ہوں اور جذباتی صحت کی اہمیت اور مطابقت سے واقف حال بھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ڈاکٹر صاحب اور ان جیسے چند پولی ماتھ polymath مںٹورس mentors کے ساتھ سول سروس اکیڈمی میں خصوصی لیکچرز بلکہ منٹورنگ سیشنز کا اہتمام کیا جائے اور نوجوان افسروں کو pyrrhic وکٹری کی تمنا سے بچنے، سوشل میڈیا کی جھوٹی دنیا سے دور رہنے اور کانٹے دار پوسٹنگز پر رہتے ہوئے بھی خواب دیکھنے کی صلاحیت بقائم ہوش و حواس برقرار رکھنے کے نایاب گر منتقل کیے جائیں۔

زبیر احمد نے ابتدائیے کا عنوان بڑا دلچسپ رکھا ہے؛ 'مشہور بندے دی گمنام شاعری' اور ساتھ ساتھ خبردار بھی کیا ہے کہ 'ساریاں نراس دیاں نہیں، ایہیہ چنگی بھلی انقلابی نظم اے۔۔۔' اور راجہ صادق نے دیباچے میں جس طرح لکھا ہے کہ؛ 'رنگ برنگی نظماں وی نیں اوہ آپ پڑھو'۔

ڈاکٹر رخشندہ پروین سماجی کارکن اور ادیبہ ہیں۔