ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی زیرِصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے مذکورہ قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اجلاس میں اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کی گئی۔ اس موقع پر راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق سرعام پھانسی نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ ایک اور کیس میں بھی سرِعام پھانسی کا فیصلہ آیا تھا اس کا کیا ہوا، سزائیں بڑھانے سے جرائم کم نہیں ہوتے۔ تاہم پیپلزپارٹی کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی میں مذکورہ قرارداد کو کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنی جماعت کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کی سخت مذمت کی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے لکھا کہ یہ ظالمانہ تہذیب کے طریقوں میں سے ایک اور سنگین فعل ہے، معاشرے متوازن طریقے سے چلتے ہیں۔ جرائم کا جواب بربریت نہیں ہوتا یہ انتہاپسندی کا ایک اور اظہار ہے۔
Strongly condemn this resolution this is just another grave act in line with brutal civilisation practices, societies act in a balanced way barberiaism is not answer to crimes...... this is another expression of extremism pic.twitter.com/ye2abes8Dc
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) February 7, 2020
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے واضح کیا کہ قرارداد حکومت کی جانب سے نہیں پیش کی گئی بلکہ یہ ایک انفرادی عمل تھا۔
ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ہم میں سے اکثر اس کی مخالفت کرتے ہیں، وزارت انسانی حقوق اس کی سخت مخالفت کرتی ہے۔ میں ایک میٹنگ میں مصروف تھی اور اس وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکی۔
The resolution passed in NA today on public hangings was across party lines and not a govt-sponsored resolution but an individual act. Many of us oppose it - our MOHR strongly opposes this. Unfortunately I was in a mtg and wasn't able to go to NA.
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) February 7, 2020
اس سے قبل رواں برس 10 جنوری کو ریپ اور قتل کا نشانہ بننے والی زینب انصاری کی لاش کے ملنے کے ٹھیک 2 سال بعد قومی اسمبلی میں زینب الرٹ ریکوری اینڈ رسپانس ایکٹ 2019 متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔ اگست 2019 میں پارلیمانی کمیٹی نے زینب الرٹ بل کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی تھی کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرموں کو 'سخت ترین' سزا دی جانی چاہیے۔ چند کے علاوہ کمیٹی کے تمام اراکین نے اس جرم کے لیے عمر قید کی سزا کی مخالفت کی تھی جبکہ دیگر کا کہنا تھا کہ اس جرم پر سزائے موت ہی ہونی چاہیے۔
بل کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم پر عمر قید، کم سے کم 10 سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال سزا دی جاسکے گی جبکہ 10 لاکھ کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا، تاہم بل کے مطابق یہ قانون صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لاگو ہوگا۔