کرونا کی وبا بچوں کے استحصال کے امکانات مزید بڑھا دے گی: شیریں مزاری

کرونا کی وبا بچوں کے استحصال کے امکانات مزید بڑھا دے گی: شیریں مزاری
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق  محترمہ  شیریں مزاری نے کہا ہے کہ بچوں سے مشقت کیخلاف عالمی دن پر ہمیں   زیادتی اور استحصال کا  شکار ہونے والی بچی زہرہ شاہ  اور اس طرح کے  دیگر تمام بچوں ک کو یاد رکھتے ہوئے  اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے اپنے اجتماعی عزم  کی  توثیق کرنی چاہئے ۔

ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہر بچے کو اسکی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم ہو۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو جاری ایک  بیان میں کیا ۔

 وفاقی وزیر نے کہا کہ عالمی برادری ہر سال 12 جون کو چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن کے طور پرمناتی ہے۔ اس سال دنیا  کو ایک بے مثل  وبائی بیماری کا سامنا ہے ۔ وباء  کے باعث خدشہ ہے کہ  بچوں کو  چائلڈ لیبر ، کمسنی  کی شادیوں اور استحصال کی دیگر اقسام کے  مزید خطرات پیش آ سکتے ہیں۔

  کوویڈ ۔19  کے باعث صحت  عامہ کو لاحق خطرات کے باعث  دنیا بھر میں بچوں  کا تعلیم  کا  حق بھی درہم برہم ہو چکا  ہے۔

پاکستان میں ، جہاں پہلے ہی اندازے کے مطابق دو کروڑ 28 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہے ۔ وبا ء کے باعث  بحرانی کیفیت میں ان کے  سیکھنے کے  عمل  پر منفی اثر ات پڑنے کے ساتھ ساتھ  تعلیمی  کے حصول  میں موجود  عدم مساوات مزید بڑھ سکتی ہے ۔

اور بچوں کے سکول سے محروم ہونے کی شرح پانچ گنا تک بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

 بچوں سے مشقت بچوں کو جسمانی، نفسیاتی، اخلاقی اور سماجی نقصان پہنچاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں اندازے کے مطابق 15 کروڑ 20 لاکھ  بچے مشقت  کرنے والوں میں شمار ہوتے  ہیں۔ ان بچوں  میں سے  سات کروڑ بیس لاکھ بچے  خطرناک نوعیت کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ عالمی ادارہ برائے محنت کے مطابق پاکستان میں اندازے کے مطابق  85 لاکھ بچے مزدوری کرتے  ہیں۔

بچوں سے مشقت  لینے میں پہلے نمبر پر زراعت کا شعبہ ہے جس میں 76 فیصد بچے مزدوری کرتے ہیں۔ جبکہ 14 اعشاریہ چھ فیصد کے ساتھ خدمات کا شعبہ دوسرے اور چھ اعشاریہ سات فیصد کیساتھ صنعتی شعبہ تیسرے نمبر پر ہے جہاں بچوں سے کئی کئی گھنٹے مشقت لی جای ہے ۔ ان شعبوں مٰن کام کرنے والے بچوں کو اکثر  اوقات خطرناک  حالات  کا سامنا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود وہ  غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔



 راولپنڈی میں ایک حالیہ افسوسناک واقعے میں 8 سالہ گھریلو ملازمہ  زہرا شاہ کو   بے دردی سے قتل کردیا  گیا ۔ مبینہ طور پر اسکی غلطی مالک کے  مہنگے طوطوں کو پنجرے سے آزاد کر نا تھی ۔  گھروں میں کام کرنے والے بچے اکثر تشدد ، ریپ ، قتل اور تشدد کی دیگر اقسام  کا شکار بنتے ہیں۔


وفاقی وزیر نے کہا کہ زہرا کے کیس نے وزارت انسانی حقوق کو بچوں  کی ملازمت کے ایکٹ 1991 کے شیڈول 1 کے تحت بچوں  کو گھریلو ملازم رکھنے کو "خطرناک کام" قرار دینے کے لئے  اہم  ترمیم تجویز کرنے کی تحریک دی ہے تاکہ اس مسئلے پر قانون  سازی  کو  مزید بہتر بنایا جا سکے۔ انسانی حقوق کی وزارت پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے قوانین اور ادارہ جاتی طریقہ کار  کا جائزہ لینے اور ان کو مضبوط بنانے پر کام کرتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح کے قوانین کے تحت بچوں سے خطرناک  کام لینے پر پابندی عائد ہے  جبکہ  مزدوری کے لئے کم سے کم عمر کی حد بھی متعین ہے ۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا  کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے  بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (UNCRC) ،  اس کے اختیاری پروٹوکول ، چائلڈ لیبر سے متعلق آئی ایل او کنونشنز  کی بھی توثیق کردی ہے ۔  انہوں نے لوگوں سے اپیل کی  کہ وہ  وزارت کی ہیلپ لائن 1099 پر  چائلڈ  لیبر سے متعلق  شکایات رپورٹ کریں ۔

اس  موقع  پر وفاقی سیکرٹری برائے انسانی حقوق رابعہ جویری آغا نے کہا کہ وزارت انسانی حقوق پاکستان میں بچوں سے مشقتت کے مسئلے کی نوعیت سے واقف ہے۔


انہوں نے کہا کہ یہ عمل  بچوں کو ان کے بچپن سے محروم کر دیتا ہے، ان کا مستقبل چھین لیتا ہے  جو کہ  آئین کے آرٹیکل 25-A میں دیئے گئے  تعلیم کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ  ہمیں بچوں سے مشقت کو معاشرے سے ختم کرنے کے لئے معاشی کمزوریوں اور تحفظات کو دور کرتے ہوئے استقامت، احتیاط اور جامعیت کے ساتھ کام جاری رکھنا ہوگا۔ 

انہوں نے کہا کہ  گزشتہ 23  سال میں پہلی بار  انسانی حقوق کی وزارت نے یونیسف کے ساتھ مل کر ، چائلڈ لیبر کا ایک قومی سروے شروع کیا ہے جو دسمبر 2020 تک مکمل  ہوگا ۔  یہ سروے اس سنگین مسئلے سے نمٹنے   اور پاکستان میں بچوں کے حقوق کو محفوظ بنا نے کیلئے ہمیں واضح روڈ میپ بنانے  میں  مدد دے گا ۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔