وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے 43ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ کشمیر میں جسمانی اور ڈیجیٹل لاک ڈاؤن عالمی انسانی حقوق کے منشور کے خلاف ہے۔
انہوں نے پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان نے ہشتگردی اور علاقائی سکیورٹی کے چیلنجز کے باوجود ہمیشہ انسانیت کے وقار اور بالادستی کو ترجیح دی۔ شیریں مزاری نے انڈیا میں بسنے والے سکھ یاتریوں کی مذہبی رسومات پر بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ پچھلے سال پاکستان نے کرتارپور راہداری کو کھولا اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے سب سے بڑے گرودوارے کی تعمیر کی جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان انسانیت کے جذبے کی کتنی قدر کرتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کی انسان دشمن پالیسیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چھ ماہ سے زیادہ عر صہ گزر گیا اور آٹھ لاکھ کشمیری دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بند ہیں جو کہ عالمی منشور کے خلاف ہے۔
شیریں مزاری نے ہندوستانی افواج کی بربریت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عورتیں بچے اور جوان بھارتی افواج کے مظالم کا شکار ہیں۔ عورتوں کے ساتھ زیادتی جبر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد 1325 کے منافی ہے۔
شیریں مزاری نے مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی جانب سے گرفتاریوں پر اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ اگست کے بعد 6000 کشمیری سیاسی رہنماؤں، کارکنان، طلبہ اور جوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ ایک کمیشن بنا کر معلوم کیا جائے کہ ہندوستانی افواج کی جانب سے مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی کتنی خلاف ورزیاں کی گئیں کیونکہ وہاں پر رہنے والے انسانوں کو نہ صرف بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جا رہا بلکہ دوائیاں تک فراہم نہیں کی جا رہیں۔