وفاقی وزیر کے تھپڑ کی گونج اور اقتدار کا نشہ

وفاقی وزیر کے تھپڑ کی گونج اور اقتدار کا نشہ
تم سے پہلےوہ جو اِک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

گزشتہ ہفتے لاہور میں شادی کی تقریب میں صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان کو سابق اینکر پرسن اور صوبائی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے تھپڑ مار دیا۔ لاہور میں صوبائی وزیر محسن لغاری کے بیٹے کی دعوت ولیمہ پر مبشر لقمان اور فواد چوہدری میں ٹک ٹاک پہ منظر نامہ پیش کرنی والی خاتون کی مبینہ ویڈیو کے حوالہ سے تلخ کلامی ہو گئی جس کے بعد یہ واقعہ پیش آیا، اس کے بعد اینکر پرسن مبشر لقمان تھانہ ماڈل ٹاون پیش ہوئے ایک درخواست وفاقی وزیر فواد چوہدری کے خلاف دے دی۔

معاملہ گرم ہوا تو ٹی وی سے شروع ہونے والا بحث مباحثہ قومی اسمبلی کے اجلاس تک گیا جہاں اس حوالے سے کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ سابق اینکر پرسن اور وفاقی وزیر نے اپنے خطاب میں فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان جیسی حفاظت سیاستدانوں کو بھی فراہم کی جائے۔ ان مزید کہنا تھا کہ جناب اسپیکر! اب ایک اور بلا نازل ہو گئی ہے، یوٹیوب چینلز کی۔ دو دن پہلے ایک ٹی وی اینکر صاحب نے یوٹیوب چینل پر پروگرام کیا جس میں میری اور دیگروزراء کے حوالے سے دعوٰی کیا گیا کہ ان کے پاس ہماری پورن ویڈیوز ہیں، اس کے بعد جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ویڈیوز کہاں ہے، تو انہوں نے مسکرا کر کہا، میرے پاس نہیں ہیں، مجھے کسی نے کہا ہے۔

فواد کا کہنا تھا کہ جناب اسپیکر یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میں نے ان سے کہا شاید آپ کے گھر میں ماوں، بہنوں، بیوی کا کوئی مسئلہ نہ ہو مگر ہمارے گھروں میں ہے، ہم اپنے گھروں اور فیملز کو جواب دہ ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ یہاں سب 5لاکھ ووٹ لیکرآئیں ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا کہ ریٹنگ کے چکرمیں پگڑیاں اچھالی جائیں۔ باقی جو ادارے ہیں وہ تو اپنا بندوبست خود کر لیتے ہیں، فوج کا بندوبست بھی اپنا ہے، عدلیہ کا اپنا بندوبست ہے لیکن ہم سیاستدان جو الیکشن لڑ کےآتے ہیں۔ کیا یہ الیکشن لڑنے کی شرط ہے کہ ہم اپنی عزت چوک پر رکھ کر آئیں کہ ہر آتا جاتا اس کو چھتر مار لے۔

سابق اینکر پرسن اور وفاقی وزیر کے مطالبے کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف نے اپنا اظہار خیال کیا، انکا کہنا تھا کہ

جناب اسپیکر! یہ گلہ نہ میڈیا سے کرنا چاہیے، نہ کسی اور ادارے سے، یہ گلہ ہمیں خود سے کرنا چاہیے، ہم لوگ جو ہیں اپنی عزت کی نیلامی کے لئے خود تلے رہتے ہیں۔ اس ایوان میں جو پچھلے ڈیڑھ سال سے چل جو رہا ہے کہ ہم خود میڈیا کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہماری پگڑی اچھالے۔ عدالت توہین عدالت کا نوٹس دیتی ہیں یا ایف آئی اے پیمرا اور دیگر ادارے لیکن ہم ایک دوسرے کے خلاف  استعمال ہوتے ہیں۔ آج کی بات نہیں ہے یہ روایت دہائیوں سے چلی آرہی ہے لیکن ڈیڑھ سال سے قوانین حزب اختلاف اور حکومت نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کئے ہیں۔ اسی سے موقعہ ملتا ہے ہماری پگڑی اچھالی جائے، اگر میڈیا یا اینکر پرسن کسی اور ادارے کے متعلق یہ بات کریں پیمرا فوراٍ حرکت میں آ جاتا ہے۔ پیمرا ریگولیٹر ہم نے بنایا ہوا ہے، جب ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف بات کر رہے ہوتے ہیں تو پیمرا بالکل حرکت میں نہیں آتا کیونکہ ہم انجوائے کر رہے ہوتے ہیں، ہم اسکور بنا رہے ہیں۔ ہم نے خود اپنے گریبان ان کے ہاتھ میں دیئے ہوئے ہیں۔ میڈیا کے لوگوں کے ہاتھ ہم تک پہنچے ہیں تو ان کا قصور نہیں ہے، ہمارا اپنا قصور ہے۔ اگر ہمارا گریبان عزیز ہے تو دوسرے مخالفین کا بھی عزیز ہونا چاہیے اگر آج ایک حکمران وزیر نے جن کے ساتھ میرا ذاتی تعلق ہے، ان کا غصہ جائز ہے۔ میں ان کے ساتھ ہوں لیکن یہ بات جب " اودے پیر سڑن لگے نے تے رولا پا دیتا اے۔ اینی دیر دے ساڈے پیر سڑن ڈیے نے ساڈے اوتے کوئی رولا نیں پیندا" جناب چوہدری نہایت ادب کے ساتھ پچھلے تیرا چودہ سال سے کوئی سیاسی جماعت آپ کی زبان سے محفوظ نہیں رہی، تمام سیاسی جماعتیں جو اس وقت ہاؤس میں موجود ہیں۔ پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، پی ایم ایل این کوئی ان کی زبان سے محفوظ نہیں رہی۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف ان کی زبان سے محفوظ نہیں رہی جو بووں گے وہی کاٹو گے۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی سابق اینکر پرسن و وفاقی وزیر فواد چوہدری جون 2019 میں بول ٹی وی کے اینکر پرسن سمیع ابراہیم کے ساتھ بھی اسی طرح پیش آچکے ہیں انہیں بھی شادی کی تقریب میں موصوف نے تھپڑ مارا تھا۔ تھپڑ کی گونج ابھی تک آرہی ہے شدت پسندی اور جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس کے قانون تحت کسی پہ بھی تشدد کیا جا سکتا ہے۔ اقتدار ہمیشہ نہیں رہتا وقت بدلتا ہے، حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ شاید کل وزارت نہ رہے کل رکن قومی اسمبلی بھی نہ ہوں اور کسی شادی کی محفل میں اسی تھپڑ کی گونج کانوں میں آ جائے کیونکہ بزرگ فرماتے ہیں کہ جو بیج بوئے جاتے ہیں، وہی کاٹے جاتے ہیں۔

کامران اشرف صحافت کے طالب علم ہیں۔