ملک پاکستان میں ویسے تو ان گنت سیاسی جماعتیں موجود ہیں مگر یہاں ہم صرف اعلی پائے کی جماعتوں کا ذکر کریں گے۔
مسلم لیگ پاکستان کی وہ سیاسی جماعت ہے جس نے مملکت خداداد کی فلاح و بہبود کیلئے نظریہ ضرورت کے تحت ہر دور میں اپنی افزائش نسل پر زور دیا، جمہوری ادور ہوں یا غیر جمہوری اس جماعت نے اردو کے حروف تہجی کے حساب سے اپنی افزائش نسل کی ہے اور الف سے لیکر ے تک بچوں کو جنم دیا ہے، میری محکمہ بہبود آبادی والوں سے گزارش ہے کہ اس جماعت کے اسقاط حمل کی تجویز کو زیر غور لایا جائے کیونکہ تاحال اس میں سے ش نامی بچے کے جنم کی تیاری کی جا رہی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی پاکستان کی سیاسی جماعت نہیں ایک فرقہ ہے، جب آپ فرقہ کا حصہ ہوتے ہیں تو عقل و دانش سے عاری ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک بھٹو خاندان ہی سیاست و زندگی کی علامت ہے، اور وہ ہی تمام سیاہ و سفید کے مالک ہیں، وہ سب کچھ کر سکتے ہیں رہ گئ عوام ان کو بھٹو کو زندہ کرنے کا علم ہاتھ میں تھما دیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف، یہ سیاسی جماعت نہیں بلکہ ان عطار کے لونڈوں کا جتھہ ہے جو فسطائیت پر یقین رکھتا ہے اور فسطائیوں کے سیاسی عالم گوئیبل کی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ بلآخر وہ سچ لگنے لگے۔
متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان کی وہ سیاسی جماعت ہے، جو ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور پر یقین کامل رکھتی ہے، کیونکہ یہ جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے اجماع کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے اس لئے اس کے کھانے کے دانت متشدد ہیں اور دکھانے والے نہایت نفیس۔
جماعت اسلامی، پاکستان کی وہ سیاسی جماعت ہے جو تاریخ میں ہمیشہ ظالم کی حمایت اور مظلوم کی دادرسی کرتی نظر آئے گی، ان کی مدبرانہ سوچ اس بات کی عکاس ہے کہ انسان کو زندگی میں ہر صغیرہ و کبیرہ گناہ کرنا چاہیے، مگر نماز پنجگانہ ادا کرنی چاہیے۔
جمعیت علمائے اسلام، پاکستان کی وہ سیاسی جماعت ہے جو ہر حکومت کا عقد پڑھانے کے لئے پہنچ جاتی ہے اور اپنی اجرت وصول پا کر اس پتلی گلی سے نکل جاتی ہے جہاں سے نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پاکستان میں ایک اور سیاسی جماعت ایسی بھی ہے جس کا کوئی مرکزی دفتر اب تک تو پاکستان میں درج نہیں البتہ ان کے گھر کے چار دروازے ہیں اور وہ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو دروازہ نمبر 4 سے شرف ملاقات بخشتے ہیں، نیز غداری کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔
عوامی سطح پر تو اب تک کوئی سیاسی جماعت وجود می آئی ہے اور نہ آنے کی امید ہے، کیونکہ جب تک بلدیاتی نظام جو کہ سیاسی جماعت اور سیاسی نظام کی اکائی و طاقت ہوتا ہے کا وجود عمل میں نہیں آئے گا۔سیاسی جماعتیں اسی طرح بانجھ پن کا شکار رہیں گی اور جمہوریت خطرہ میں رہے گی۔