دو پارٹی نہ تین پارٹی، مستقبل میں بس ایک پارٹی سسٹم ہوگا

دو پارٹی نہ تین پارٹی، مستقبل میں بس ایک پارٹی سسٹم ہوگا
اکیسویں صدی میں آگے بڑھتے ہوئے جیسے انسانیت کا ہر شعبہ تبدیلی کی گاڑی پے سوار ہے، ویسے ہی پاکستان کی سیاست کے بھی طور طریقے، رجحانات اور ضروریات یکسر تبدیل ہو رہی ہیں۔ کوئی بھی مشاہدے میں ماہر شخص یہ دیکھ سکتا ہے کہ اب پاکستان میں جمہوریت اور جمہور کچھ بیڑیوں کے ساتھ ہی سہی لیکن آگے بڑھ رہی ہے۔ حالیہ انتخابات کے ہر پہلو کو محو گفتگو اور قلم بند کیا جا چکا ہے اور کئی دہائیوں بعد قوم نے دو پارٹیوں اور آمریتوں کے بجائے ایک تیسری قوت کو اپنا حکمران ہوتے دیکھ لیا ہے۔ تنقید و تکریم کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن اس تیسری قوت کی پارٹی یعنی پی ٹی آئی کا وژن اور بنیادی سیاسی ترجیحات دونوں پارٹیوں اور آمریوتوں سے یکسر مختلف ہیں۔ اور اگر عمران خان کی حکومت اپنی مختلف سیاسی ترجیحات پر اگلے پانچ سال واضح عملی پیشرفت کرتی ہے اور ریاست کا بنیادی ڈھانچہ عوام کے لئے موافق بنا دیتی ہے تو پاکستان کا ایک نئی سیاسی صورتحال کی طرف بڑھنے کا امکان یقیناً بڑھ جائے گا اور وہ سیاسی صورتحال 'دو پارٹی سسٹم' ہوگا نہ ہی 'تین پارٹی'  بلکہ 'ایک پارٹی سسٹم' پروان چڑھ  جائے گا جو کئی حوالوں سے ملک و قوم کیلئے بہتر نہ ہوگا۔

پی ٹی آئی نون، پی پی پی اور آمریتوں سے کیوں مختلف ہے؟

پہلے اس پہ قلم کو تکلیف دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کس طرح نون، پی پی پی اور آمریتوں سے مختلف ہے۔ آغاز کرتے ہیں مقامی حکومتوں کے نظام سے۔ عمران خان آمر حکمرانوں کی طرح سیاسی پارٹیوں کی طاقت توڑنے اور اپنی غیرجمہوری حکمرانی کو جلا بخشنے کے لئے مقامی حکومتیں لانا چاہتا ہے اور نہ ہی دو پارٹیوں کی طرح لوکل گورنمنٹس کو غیر فعال رکھ کر اپنی ذاتی قوت و اثرورسوخ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بلکہ پی ٹی آئی کے گورننس کا ماڈل شروع ہی سے 'صوابدیدی فنڈز' کے خاتمے اور نسبتاً مضبوط لوکل گورنمنٹس پر ہے۔

پی ٹی آئی کو ووٹ میٹرو پر نہیں ملا

مزید آگے بڑھیں تو پی ٹی آئی کے سیاسی ایجنڈا اور وعدوں میں کہیں نون لیگ کی طرح میٹرو بسیں، موٹرویز، ائرپورٹس اور بڑی شاہانہ عمارتوں والے منصوبے نہیں۔ نئی حکومت نے ووٹ لیا ہے سکول ٹھیک کرنے کا، سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر اور تھانے میں عوام دوست پولیس کا، دخت ورخت لگانے اور کھیلوں کی گراؤنڈوں پر۔ اور حکومت کی طرف سے نوکریوں کی فراہمی کے مذکورہ وعدوں پر غور کیا جائے تو پی پی پی کے بیروزگاری ختم کرنے کے ایجنڈے سے بالکل مختلف سارا کام پرائیویٹ سیکٹر کی 'labour intensive industries' کے کندھوں پر ڈالا جائے گا، ایک کروڑ میں سے ایک سرکاری نوکری کا وعدہ نہیں کیا گیا۔ پرانے ادوار مے نوکریوں کا مطلب سرکاری اداروں کی خالی آسامیوں پر بندربانٹ ہوتا تھا۔

پی ٹی آئی کو ووٹ دیں نہ دیں، پھر کبھی نون اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے

پی ٹی آئی کا طرزعمل ایک سٹیٹس قو برقرار رکھنے والی جماعت کا ہے اور نہ ہی انقلابی، بلکہ اصلاحات کے وعدے پر حکومت میں آئے ہیں۔ اور کئی اصلاحات کسی اور چیز سے پہلے صرف 'پولیٹیکل ول' اور میرٹ پر تقرریاں مانگتی ہیں۔ اگر عمران خان پچھلی چھے دہائیوں کے برخلاف عوام کو اگلے پانچ سالوں مے بہتر سکول، ہسپتال، پولیس اور عدالتیں دے دے اور NAB، FIA، FBR کو سیاسی مصلحتوں کے بغیر چلا کر مستقبل کی کرپشن کو روک لیتے ہیں تو پی ٹی آئی کا ووٹر بالخصوص اور باقی پارٹیوں کے ووٹرز بالعموم پی ٹی آئی کو ووٹ دیں نہ دیں، پھر کبھی نون اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے اور ان کی پچھلی چار دہائیوں کی کارکردگی کو مدنظر ضرور رکھیں گے۔ اور یہ بھی دیکھیں گے کہ کیا نون لیگ اور پیپلز پارٹی پولیس، عدالتی نظام، اداروں، اور سامجی (عوامی) شعبوں پر اپنے مفادات پر سمجھوتہ کریں گی؟

Welcome to One Party System

اور اس طرح ترکی اور ملائشیا کی طرح پاکستان میں بھی ایک پارٹی سسٹم پروان چڑھنے کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔ یہ تحریر یقیناً صرف ایک امکان کو 'isolation' میں خصوصی اہمیت دے رہی ہے، کیونکہ پی پی پی اور نون لیگ کے بنیادی سیاسی ایجنڈوں کو بہتری اور وقت کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی سنجیدہ کوششیں ںہیں کی جا رہیں۔ اور آج ہمارے ساٹھ فیصد نوجوانوں کے سیاسی اور سماجی رجحانات یکسر مختلف ہو چکے ہیں جس کو صرف پی ٹی آئی کسی حد تک ایڈریس کر رہی ہے۔ اگر پرانی پارٹیوں نے اپنی سیاست کو اکیسویں صدی کی گاڑی پر سوار نہ کیا اور پرانی سیاست کے علمبردار بنے رہے تو کچھ عرصے بعد پی ٹی آئی والے ان کو 'welcome to one party system' کا طعنہ دے رہے ہوں گے۔