ڈرٹی پالیٹکس ،عمران خان اور حسن نثارکے خطبات: 'آج کی تبدیلی موجودہ دور کی طرح این جی او زدہ ہے'

ڈرٹی پالیٹکس ،عمران خان اور حسن نثارکے خطبات: 'آج کی تبدیلی موجودہ دور کی طرح این جی او زدہ ہے'
حکومت کی نیت کیا ہےاس سے قطع نظر عوام کو یہ جاننے کا حق تو دیا جائے کہ کون کس کا آدمی ہے۔پرویزمشرف اور عمران خان نے توگھڑمس ہی مچا دیا ہےایسے آدمی سیاست میں لیکر آئے ہیں جوسیاسی نظریات تو دور کی بات ہے۔ان کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہے۔ محض ہوا کا رخ دیکھا اور چل پڑتے ہیں۔ سیاست اوراخلاقیات کی ایسی مٹی پلید کی ہے کہ اچھے بھلےجذباتی دانشور حسن نثار بھی چیخ چیخ کرکہتے سنائی دیتےہیںکہ سیاستدان کرپٹ اور گندی نالی کے کیڑے ہیں۔ جبکہ سیاستدان بنانے والوں کی صفائی پیش کرتے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں۔ سیاستدانوں کو گندہ کہنے کی لہر ضیاالحق اور پرویز مشرف قبضہ اقتدار کے دوران چلی اور ایک نسل تیار ہوئی جو سیاست کو گندہ کہنے پر فخر محسوس کرتی ہےجبکہ حسن نثار کی قبیل کے لوگ اپنی بقا کی خاطر جمہوریت اور سیاست کو گالی دینے پر مجبور ہیں۔
ایوب ،ضیاء اور پرویز مشرف کے مارشل لاءکی پیداوار جنہیں عرف عام میں باقیات کہا جاتا ہےملکی سیاست کے بڑے گھوڑے(ونرہارس) باقیات کا ہی تسلسل ہیں۔یہی ونر ہارس آج سرمایہ سیاست ہیں جو بوقت ضرورت کام آتے ہیں۔پی ٹی آئی کےاقتدار کاکرشمہ ونر ہارس کی مرہون منت ہے۔بصورت دیگر بائیس سالہ جدوجہد رائیگاں ہی تو تھی۔
پیرا شوٹ سے اترنے والے سیاستدانوں کو سیاسی اخلاقیات اور سیاسی نظریات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔مسلم لیگ (ق،ن،ج)میں پیرا شوٹ سے آنے سیاستدانون کی بہتات تھی۔عوام نے ان کے سیاسی رویے بھی دیکھے مگر تحریک انصاف بازی لے چکی ہے۔ عوام نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ اپنے بنائے گئے ونر ہارسس سے پی ٹی آئی کو بھردیا گیا اور اقتدار کی راہ ہموار کی گئی تھی۔
ملکی سیاسی تاریخ کے باب ان سیاہ کاریوں سے اٹے پڑے ہیں۔8 فروری 1981 میں چلنے والی بحالی جمہوریت کی تحریک کے جمہوری وسیاسی اثرات کو زائل کرنے کےلئے نواز شریف میدان میں اتارا گیا  جنہوں نے اپنی تمام تر قوتیں لگاکر جمہوری تحریک کے اثرات ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔نواز شریف اینڈکمپنی کو ضیا ء آمریت کی باقیات کہا جاتا رہا ہے۔
عمران خان آج کے نواز شریف ہیں۔عمران خان سے وہی خدمات لی جارہی ہے جو کبھی نوازشریف انجام دیتا رہا ہے۔ ہر عہد کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔یہ این جی اوز کادور ہے۔تبدیلی بھی این جی اوز زدہ ہے۔این جی اوز سیاست کا راستہ روکتی ہیں۔ اور مصالحت کارکے طور کام کرتی ہیں۔عوام کی امنگوں ،مطالبات ،مزاحمت ،غم و غصہ ختم کرکے ایک ایسا ماحول بناتی ہیں کہ حاصل و وصول کچھ بھی نہیں ہوتا ہے مگر عوام کے ذہن ایسے بن جاتے ہیں کہ سب کچھ پالیا ہے۔ایسی ہی تبدیلی آئی ہے۔عمران خان نے کامیابی سے تبدیلی لاکر خود کو کارمد ثابت کردیا ہے۔
عمران خان کی بدولت  بائیں ،دائیں بازو کی سیاست سمیت مذہبی سیاست بھی کاونٹر کی گئی ہے۔اخلاقیات ،سیاسی وسماجی قدریں ملیامیٹ کرتے ہوئے سیاست میں ایسے نئے لوگوں کا راستہ بنایا ہے کہ کالے دھن والے آسانی سےسیاست میں فٹ ہوسکیں۔عاصم سلیم باجوہ ،اعجازشاہ ،جہانگیر ترین ،علیم خان عہد کے بڑے سیاستدان بن کر سامنے آئے ہیں۔
حسن نثار بہت بڑے صحافی اور دانشور ہیں۔پایہ کے لکھاری ہیں۔ان کی دانش کے آگے دم مارنے کی مجال نہیں ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ سیاست کے کاریگروں کے بارے میں جناب کا کیا خیال ہے۔جنہوں نے سیاست کی نرسریاں ،طلبہ یونین ،ٹریڈ یونین بند کرکےاپنے کھیت سجائے ہیں ۔سیاست دانوں کے بارے میں تو آپ لسانیات کی تمام حدیں پار کردیتے ہیں۔کیاچند خطبات کاریگروں پر دینے کی ہمت بھی کریں گے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔