رمضان المبارک کے دوران خطبات جمعہ کی نگرانی کا فیصلہ

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رمضان المبارک کے دوران مساجد اور امام بارگاہوں میں جمعہ کے خطبات کی نگرانی اور انہیں ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنرز، مجسٹریٹس اور ایس ایچ اوز اپنی ٹیموں کے ساتھ عبادت گاہوں کے اندر اور اطراف کی سرگرمیوں کی نگرانی کے علاوہ انہیں ریگولیٹ بھی کریں گے۔ یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ جمعۃ المبارک کے خطبات اسلام کے پانچ ستونوں، اہل بیت اطہار اور بنیادی حقوق سمیت دو درجن سے زائد منتخب عنوانات پر ہی دیے جائیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کالعدم تنظیموں کی جانب سے نقد عطیات کی وصولی پر بھی نظر رکھے گی۔



تمام عبادت گاہوں کے منتظمین اور خطباء سے حلف نامہ جمع کروانے کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ ان تمام ہدایات پر عمل کریں گے جو انتظامیہ اور پولیس نے جاری کی ہیں جب کہ  تمام مساجد سے یہ ضمانت بھی لی گئی ہے کہ وہ تراویح کے فوراً بعد عبادت گاہیں بند کر دیں گے جب کہ سحری میں انہیں دوبارہ کھولا جائے گا۔

حکام کے مطابق، مساجد اور امام بارگاہوں کے داخلی اور خارجی راستوں کے لیے صرف ایک دروازہ استعمال کیا جا سکے گا جب کہ نماز کے علاوہ کسی کو وہاں رُکنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کی جانب سے 900 مساجد اور 33 امام بارگاہوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 43 مساجد اور 21 امام بارگاہوں کو کیٹیگری اے، 351 مساجد اور سات امام بارگاہوں کو کیٹیگری بی اور 596 مساجد اور پانچ امام بارگاہوں کو کیٹیگری سی میں رکھا گیا ہے۔

کیپیٹل پولیس کی خصوصی برانچ، انسداد دہشت گردی فورس اور دیگر پولیس ونگز کی جانب سے خفیہ اداروں کی معاونت سے کیے جانے والے سکیورٹی آڈٹ کے بعد ان عبادت گاہوں کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ تین ہزار ایک سو سے زیادہ مسلح پولیس اہلکار، رضاکار اور نجی گارڈز عبادت گاہوں کی سکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔



ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفاقت نے کہا ہے کہ کچھ سرگرمیاں جیسا کہ لائونڈ سپیکر کے استعمال پر دفعہ 144 کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے لیکن خطبہ جمعہ لائوڈ سپیکر پر دیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ عبادت گاہوں کو ان کی درخواست پر تراویح کے بعد درس قرآن کی اجازت دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ ماہ رمضان میں دفعہ 144 کے تحت عبادت گاہوں کی 100 میٹر حدود میں عطیات کی وصولی سمیت کسی بھی سرگرمی پر پابندی عائد کی گئی ہے جب کہ عبادت گاہوں اور اطراف میں خطبات اور دیگر سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔