سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں ایف آئی آر درج کرنے کے خلاف اپیل پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ سے وضاحت طلب کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیدیا۔
جسٹس قاضی عیسی فائز اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل بینچ کے روبرو لاپتہ افراد کیس میں ایف آئی آر درج کرنے پر پراسیکیوشن کی اپیل کی سماعت ہوئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پراسیکیوٹر جنرل سندھ فیض ایچ شاہ پر شدید برہم ہوگئے۔ انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ پولیس اسٹیٹ ہے؟ آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرنا بند کریں۔ آئین اور قانون کو مذاق بنا رکھا ہے۔ کیا آپ شہریوں کو لاپتہ کرنے والوں کی سہولتکاری کررہے ہیں؟۔
پراسیکیوٹر جنرل سندھ فیض ایچ شاہ نے موقف دیا جی ایسا نہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ بالکل ایسا ہی ہے، آپ سہولتکاری کا کام کررہے ہیں، آپ کا کام کیا ملزمان کو تحفظ دینا ہے؟ کیا آپ ایس ایچ او ہیں جو ایف آئی آر درج کرنے نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے؟۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے دکھ ہوا کہ ریاست ایک ایف آر درج ہونے کیخلاف عدالت میں آئی۔
شہری محمد اقبال پٹیل نے کہا کہ میرے بھائی محمد ندیم پٹیل کو سی ٹی ڈی انچارج راجا عمر خطاب نے اغوا کیا۔ سندھ ہائیکورٹ نے راجا عمر خطاب کیخلاف ایف آئی آر کا حکم دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ بتائیں، آپ نے کس حیثیت میں یہ اپیل دائر کی؟ کیا راجا عمر خطاب اتنا طاقتور ہے کہ آپ کے ادارے کو چلا رہا ہے؟، راجا عمر خطاب کے بجائے آپ کو اپیل کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ آپ کو ایس ایچ او کے اختیارات کب سے مل گئے؟۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دکھ ہوا کہ ریاست ایک ایف آئی آر کیخلاف اپیل کر رہی ہے۔ کم از کم اتنا تو حق دیں کہ نام شامل ہوسکے کہ کس نے اغوا کیا۔ ایف آئی آر غلط درج ہو تو کٹوانے والے کیخلاف آپ کا حق ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے موقف دیا کہ ایف آئی آر درج ہو جائے تو ہمیں اب کوئی اعتراض نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرکے کسی پر احسان کیا کیا؟ کیا احسان کر رہے ہیں یہ کرکے، آپ کی ذمہ داری ہے یہ۔ یہ کون سا طریقہ ہے، جو مرضی آئے وہ کریں۔ کس قانون کے تحت آپ نے یہ فیصلہ کیا؟۔
عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ سے اپیل دائر کرنے پر وضاحت طلب کرلی اور پیر کو وضاحت کے ساتھ دوبارہ پیش ہونے کی ہدایت کردی۔