عدالت نے کارونجھر پہاڑ کی کٹائی کو غیرقانونی قرار دےکر صحراء میں بسنے والے تھری باشندوں کے اُداس چہروں پر مسکراہٹیں بکھیردیں۔
ننگرپارکر تھر پاکستان کے ضلع تھرپارکر کی ایک مقامی عدالت نے پاکستان فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او اور ایک نجی کمپنی کو ننگرپارکر میں کارونجھر پہاڑ کی کٹائی سے روک کر غیرقانونی قرار دے دیا۔ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کے خلاف 188 پی پی سی کے تحت مقدمہ داخل کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا۔
تھرپارکر جو دنیا کے سترہویں بڑے صحرا، صحرائے اعظم تھر کا ایک حصہ ہے جبکہ اس کا دوسرا اور بڑا حصہ سرحد کے اس پار بھارت میں واقع ہے۔ اس کا تقریباً 75 فیصد حصہ بھارت جبکہ محض 25 فیصد حصہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں کراچی سے 400 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ دنیا میں قابل کاشت صحراؤں میں اس کا نواں درجہ ہے۔ سندھ کے صحرائے تھر کا رقبہ تقریباً 28000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے۔
تھرپارکر دو الفاظ یعنی ’’تھر‘‘ اور ’’پارکر‘‘ کا مجموعہ ہے۔ تھر کے معانی ’’صحرا‘‘ اور پارکر کے معنی ’’پار کرو‘‘ یا ’’دوسری طرف‘‘ کے ہیں۔ مقامی لوگوں کا بتانا ہے کہ ماضی میں تھر دو حصوں پر مشتمل تھا یعنی تھر اور پارکر جو ازاں بعد ایک لفظ تھرپارکر بن گیا۔ بنظر ظاہر دیکھنے سے بھی تھر کے دو حصے الگ الگ اور واضح نظر آتے ہیں۔ ایک مشرقی تھر جو ریت کے ٹیلوں سے اٹا پڑا ہے جبکہ مغرب کی جانب پارکر کسی حد تک مختلف، پہاڑی، زرعی اور آب پاش علاقہ محسوس ہوتا ہے۔ پارکر میں میلوں پھیلے ہوئے بلند و بالا پہاڑ دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ مون سون کی بارشوں کی آمد ان پہاڑوں پر سبزے کی چادر تان دیتی ہیں اور ان پہاڑوں سے نکلنے والے ندی نالوں میں بھی روانی عود کر آتی ہے۔ یہی وہ موقعہ ہوتا ہے جب تھر اور سندھ کے دیگر علاقوں سے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بدلے ہوئے موسم سے لطف اندوز ہونے ننگر پارکر اور نواحی علاقوں کا رخ کرتی ہیں لیکن اسی کارونجھر پہاڑ کے دامن میں رہنے والوں کے کئی ماہ سے اُداس چہرے سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
کارونجھر پہاڑ کی کٹائی کے چرچے نہ صرف تھر بلکہ دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں کیوں کہ سوشل میڈیا پر گزشتہ کئی ماہ سے ننگرپارکر کی کچھ نوجوانوں نے #Savekaronjhar مہم چلائی اور اس کے علاوہ ننگرپارکر سے لیکر کراچی، کراچی سے اسلام آباد تک چھوٹے بڑے احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کٹائی کا عمل سندھ کے مائنز اینڈ منرل ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایف ڈبلیو او کو دی گئی ایک لیز کے تحت کیا جا رہا تھا لیکن اس حوالے سے کسی بھی باقاعدہ معاہدے کو اب تک منظر عام پر لانے سے اجتناب کیا گیا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ عمل علاقے کے لیے بالخصوص اور ملک کے بالعموم خطرے کا باعث ہے۔ عدالت کو معلوم ہوا کہ اس طرح کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ اس کے پیچھے کچھ طاقتور لوگ ہیں تاکہ لوگوں کو اس حوالے سے کوئی قانونی اقدام لینے سے باز رکھا جائے۔
عدالت نے قرار دیا کہ اس بارے میں ریجنل مینیجر ایف ڈبلیو او اور کوہ نور ماربل انڈسٹریز نامی کمپنی نے دھونس اور جبر و استبداد کا مظاہرہ کیا ہے اور اس سے اپنی جیب بھرنے کی کوشش کی ہے۔ جب کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ان کا ریاست کے کسی ادارے سے قریبی تعلق ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایف ڈبلیو او کمپنی اس حوالے سے لیز ایگریمنٹ، سروے رپورٹ، حدود یا اس قسم کی دستاویزات بھی دکھانے کو تیار نہیں۔ نہ ہی اس سلسلے میں کسی ادارے یا محکمے کا کوئی اجازت نامہ دکھایا جاتا ہے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ کارونجھر پہاڑ صرف پہاڑ ہی نہیں بلکہ یہ سلسلہ علاقے میں سبزہ پیدا کرنے کا باعث ہے جس سے ادویات کی تیاری کے ساتھ مال مویشی بھی چرتے ہیں۔ جب کہ اس کے ساتھ یہ سلسلہ جنگلی جانوروں کے تحفظ کا بھی فطری ذریعہ ہے۔
عدالت کے مطابق اسی طرح یہ پہاڑی سلسلہ مقامی لوگوں کے لیے کسی حد تک پانی کی فراہمی کا بھی ذریعہ ہے۔ اگر کارونجھر پہاڑوں کی غیر قانونی کٹنگ جاری رہی تو علاقے کے لوگوں کا زندہ رہنے کے لیے اس اہم ذریعے سے بھی محروم ہونے کا اندیشہ ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس پہاڑی سلسلہ میں ہندو مت کے کئی مندر ہونے کے ساتھ کئی ثقافتی اور تاریخی ورثے بھی ہیں۔
حکم میں کہا گیا ہے کہ دفاعی لحاظ سے بھی یہ پہاڑی سلسلہ پاکستان اور بھارت کے بارڈر پر واقع ہونے کی وجہ سے دفاعی دیوار کا درجہ رکھتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ریاستی اثاثے کی غیر قانونی کٹائی کا یہ عمل گزشتہ کئی برس سے جاری ہے جو آئین اور مروجہ طریقۂ کار کو بالکل نظر انداز کر کے کیا جا رہا ہے۔
سول جج و جوڈیشل مجسٹریٹ کرم علی شاہ کی جانب سے کارونجھر پہاڑ کی کٹائی خلاف لئے گئے نوٹس کے بعد گزشتہ روز نگرپارکر کی عدالت میں متعلقہ انتظامیہ،کنٹریکٹر و عملداران کی پیشی ہوئی، جس میں ایف ڈبلیو او اور کوہِ نور ماربل کمپنی کے وکیل برکت میتلو پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو جوابات داخل کراتے ہوئے بتایا کہ کارونجھر کا معاملہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، ہم لوگوں نے وہاں بھی جواب دے دیا ہے، فاریسٹ آفیسر کاشف شیخ نے عدالت کو بتایا کہ فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کارونجھر پہاڑ کی کٹائی کی کسی بھی کمپنی کو این او سی نہیں دیا گیا۔
عدالت میں محکمہ ثقافت و سیاحت کے اسسٹنٹ کمشنر کیلاش نے جواب داخل کراتے ہوئے کہا کہ پہاڑ کی کٹائی کا این او سی ہمارے محکمہ کی جانب سے بھی جاری نہیں کی گیا بلکہ محکمہ ثقافت و سیاحت تو کارونجھر پہاڑ کو عالمی ورثہ قرار دینے کے لئے یونیسکو کو خط ارسال کر چکا ہے۔
محکمہ لائیو اسٹاک کے ڈپٹی ڈائریکٹر گوردھن داس کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق کارونجھر پہاڑ جنگلی حیات اور چوپایوں کی پالنے کےلئے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے، چوپایوں کی خوراک، چارے کا ذریعہ بھی یہی پہاڑ ہے، محکمہ لائیو اسٹاک کی جانب سے کسی کو بھی پہاڑ کی کٹائی کا اجازت نامہ جاری نہیں کیا گیا۔
محکمہ معدنیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر صدیق منگریو نے عدالت میں رپورٹ جمع کراتے ہوئے کہا کہ ہماری طرف سے کارونجھر پہاڑ کی کٹائی بند کرائی گئی ہے، کارونجھر پہاڑ کی لیزوں کے دستاویزات ڈائریکٹر جنرل محکمہ معدنیات کی آفس میں ہیں، جبکہ ڈائریکٹر جنرل نے ہمیں دستاویزات فراہم نہیں کئے، جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل محکمہ معدنیات کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 13 جنوری تک دستاویزات جمع کرانے کا حکمنامہ جاری کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر تھرپارکر، اسسٹنٹ کمشنر ننگرپارکر اور مختیارکار ننگرپارکر کی جانب سے عدالت میں رپورٹ درج نہیں کروائی گئی، جس پر عدالت نے آج بروز جمعہ رپورٹ جمع کرانے کا حکم جاری کیا۔
رپورٹ جمع کرانے کے بعد ننگر پارکر کے جوڈیشل مجسٹریٹ جج کرم علی شاہ کی عدالت نے تاریخی فیصلہ سناکر تھری باشندوں کے اٗداس چہروں پر مسکراہٹیں بکھیردی، عدالت نے تاریخی اور سیاحتی مقام کارونجھر پہاڑ کی کٹائی کو غیرقانونی قرار دے دیا۔
عدالت نے کارونجھر پہاڑ پر کٹائی کرنے والی کمپنیاں ایف ڈبلیو او، کوہ نور اور حاجی عبدالقدوس راجڑ کو اپنی اپنی مشینری لے جانے اور قائم کیمپوں کو ختم کرنے کا حکم جاری کیا۔
Absolute order in Karoonjhar
جوڈیشل مجسٹریٹ ننگرپارکر کی عدالت نے گذشتہ دنوں متعلقہ اداروں کی رپورٹوں کی روشنی پر فیصلہ سنایا اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کے خلاف 188 پی پی سی کے تحت مقدمہ داخل کرنے کا حکم بھی جاری کردیا اور ساتھ ہی ایس ایس پی تھرپارکر کو فیصلے پر عمل کرانے اور 5 جنوری کو رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
عدالت کے فیصلے پر تھرپارکر سمیت سندھ بھر کی عوام میں خوشی کی لہر دور اُٹھی، ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا سلسلہ جاری ہے، عدالت کےاس فیصلے کو خوشی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے ۔