کارونجھر پہاڑوں کی کٹائی پر مقامی آبادی کو کیا تحفظات ہیں؟

کارونجھر پہاڑوں کی کٹائی پر مقامی آبادی کو کیا تحفظات ہیں؟
تھرپارکر کے ہیڈکوارٹرز مٹھی سے ننگرپارکر کے ریگستانی صحرا کی طرف جیسے جیسے ہمارے گاڑی نے پیش قدمی کی تو خواتین کے مخصوص لباس، چوڑیوں، اونٹوں کی سواری اور جھونپڑی نما گھروں نے ہماری ذہنوں میں کسی اور دنیا کا نقشہ کھینچ دیا۔

مٹھی سے 130 کلومیٹر دور ننگرپارکر کا ریگستانی صحرا واقع ہے، وہاں زندگی کی بنیادی سہولیات پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت کم ہے لیکن زندگی قدرے پرسکون ہے۔ جیسے جیسے ننگرپارکر کے تحصیل ہیڈکوارٹر میں داخلہ شروع ہوجاتا ہے تو سڑک کے دائیں جانب سنگلاخ چٹانوں پر محیط پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور یہ پہاڑی سلسلہ مذہبی اور سیاسی حوالوں سے مقدس سمجھا جاتا ہے۔



سنگلاخ چٹانوں کے ان پہاڑیوں کو کارونجھر کے نام سے جانا جاتا ہے جن کے سینے میں نہ صرف ہندو اور مسلمان آبادی کے مقدس مقامات ہیں بلکہ ان پہاڑوں سے نکلنے والے چشمے پانی ذخیرہ کرنے کا ایک زریعہ بھی ہیں۔ ان سنگلاخ چٹانوں میں گرینائٹ کے قیمتی پتھر واقع ہیں اور ان پتھروں کو نکالنے کے لئے ان پہاڑوں کی کٹائی شروع کی گئی جس کے بعد کارونجھر پہاڑ کی کٹائی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گزشتہ کئی ماہ سے #SaveKaroonjhar مہم جاری ہے اس کے علاوہ ننگرپارکر سے لیکر اسلام آباد تک احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔



سوشل میڈیا پر ردعمل آنے کے بعد تھرپارکر کی ایک مقامی عدالت نے پاکستان فوج کے ذیلی ادارے ایف ڈبلیو او اور ایک نجی کمپنی کو ننگرپارکر میں کارونجھر پہاڑ کی کٹائی سے روک دیا ہے۔

سول جج اینڈ جوڈیشل مجسٹریٹ ننگرپارکر کرم علی شاھ نے مقامی اور بین الاقوامی قوانین، آئین پاکستان، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دے کر اپنا فیصلہ جاری سنایا۔ انھوں نے کہا کہ کاشرونجھر کو کاٹنے کا مطلب ایک ایسی مرغی کو مارنا ہے جو سونے کا نہیں بلکہ ہیرے کا انڈا دیتی ہے۔

درخواست میں پاکستان فوج کے تعمیراتی ادارے ایف ڈبلیو او، کوہ نور ماربل انڈسٹری، سندھ پولیس، محکمہ جنگلی حیات، جنگلات، نوادرات اور ثقافت اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں ایف ڈبلیو او اور کوہ نور کمپنی کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ قانونی طور پر یہ عمل جاری ہے جبکہ آپ نے لیز کے معاہدے، سروے رپورٹس، حدود یا اس کی شرائط سمیت کوئی اور دستاویز ظاہر نہیں کیں اور اس کے علاوہ محکمہ ماحولیات، محکمہ جنگلی حیات، محکمہ ثقافت و نوادرات اور پاکستان کی وزارت دفاع کا این او سی جو کام شروع کرنے سے پہلے لازمی شرط ہے، پیش نہیں کیا۔



ننگرپارکر میں سیاسی اور سماجی کارکن مول چند کوہلی ہر ہفتے اپنے گھر والوں کے ساتھ ان پہاڑوں پر سیر و سیاحت کے لئے آتے ہیں مگر اب ان کو خدشہ ہے کہ یہ پہاڑ جلد ہی ختم ہوجائینگے کیونکہ بڑے بڑے مافیا کی اس پر نظریں ہیں۔ مول چند کہتے ہیں کہ یہ پہاڑ نہ صرف سیر و سیاحت اور مقامی آبادی کے لئے پانی کا ایک زریعہ ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کی ہندو اور مسلمان آبادی کی اس سے روحانی وابستگی ہے اور اگر کوئی ان پہاڑوں کو توڑے گا تو ہمیں تکلیف ہوگی اور ہم ہر پلیٹ فارم پر اسکی مزاحمت کرینگے چاہے اس کے نتائج جو بھی ہوں۔

ان کے مطابق یہ پہاڑ مذہبی حوالے سے ان کے لئے مقدس ہیں اور ان پہاڑوں کے اندر ان کے مقدس مقامات ہیں جو تاریخی ورثہ ہیں اور ہم ہر حال میں اس کو بچائیں گے۔

کارونجھر کے پہاڑوں کی کیا اہمیت ہے؟

بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق ان پہاڑوں میں جا بجا مختلف مذاہب کی قدیم عبادت گاہیں موجود ہیں۔ جین اور ہندودھرم کے پرانے مندر اور ایک ہی رات میں تعمیر کی گئی محمود بیگڑی کی مسجد سمیت ان گنت تاریخی مقامات کارونجھر کے پہاڑوں میں ہیں۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس پہاڑ میں ہندو دھرم کے 108 دھرمی آستان ہیں، جس میں ساڑدرو دھام تو گنگا کے بعد سب سے بڑا دھام سمجھا جاتا ہے۔
بعض روایات کے مطابق مہا بھارت میں جب کوروں نے پانڈوؤں کو 13 سال کے لیے جلاوطن کیا تھا تو پانچ پانڈو بھائی انہی پہاڑوں پر آ کر بس گئے تھے اور ان کے نام سے پانی کے تالاب اب تک موجود ہیں۔



کارونجھر پہاڑ کے حوالے سے کہاوت مشہور ہے کہ یہ پہاڑ روزانہ ’سوا سیر‘ سونا دیتا ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پہاڑوں پر ماحولیاتی نظام کے وسائل مثلاً شہد، جڑی بوٹیاں اور جانوروں کے دودھ دہی سے مقامی لوگ ’سوا سیر‘ سونے جتنی رقم کما لیتے ہیں۔ مگر اب ان وسائل سے زیادہ ان پہاڑوں کا خوبصورت گرینائیٹ تجارتی مقاصد کے لیے مرکز نگاہ بن چکا ہے اور آئے دن یہاں پتھروں کٹائی کے خلاف مقامی لوگ شدید احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔
عدالت نے متعلقہ تھانوں کے ایس ایچ اوز اور ایس ایس پی تھرپارکر کو حکم دیا ہے کہ پہاڑ کاٹنے کی مشینری فوری ہٹائی جائے اور جو گاڑیاں پتھروں سے بھری ہیں انہیں خالی کیا جائے جبکہ عدالت نے ونگ کمانڈر 36 رینجرز کو ہدایت کی کہ وہ اپنی ماتحت چیک پوسٹوں سے اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہاں پتھروں سے بھری گاڑیوں کو روک لیا جائے۔

کیا عدالتی فیصلے سے کوئی ریلیف ملے گی؟

پرکاش کا تعلق ننگرپارکر کے ایک مقامی گاؤں سے ہیں اور وہ نوجوانوں کی ایک فلاحی تنظیم چلا رہے ہیں۔ پرکاش کا ان پہاڑیوں سے روحانی تعلق ہے اور وہ ان کو نہ صرف مذہبی حوالوں سے مقدس سمجھتے ہیں بلکہ ان کو ماحولیات اور مال مویشیوں کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ پرکاش کہتے ہیں عدالت نے فیصلہ تو دیا مگر جو کمپنیز ان پہاڑوں کو کاٹ رہی ہیں وہ بہت طاقتور ہیں اور ان میں مبینہ طور پر حکومتی نمائندوں کے علاوہ دیگر طاقتور اداروں کے افسران بھی ملوث ہیں جن کو لگام ڈالنا ایک مشکل کام ہے۔ پرکاش سمجھتے ہیں کہ عدالتی فیصلے کے باوجود کارونجھر کے پہاڑوں کو ختم کیا جائے گا۔

کیا مقامی آبادی کو کوئی فائدہ مل رہا ہے؟

نیا دور میڈیا نے اس حوالے سے ننگر پارکر میں دس سے زائد لوگوں سے بات کی مگر تمام افراد کا ماننا ہے کہ قیمتی پتھروں کی کٹائی سے مقامی افراد کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے اور اگر مل بھی رہا ہے تو کچھ بااثر خاندانوں کو جو مافیہ کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی سندھ حکومت سے کارونجھر کے پہاڑوں کی کٹائی پر جواب طلب کیا ہے اور سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ننگرپارکر کی خوبصورتی کو کسی صورت تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔