Get Alerts

ترجمان پاک فوج کی پریس کانفرنس کسی اور کیلئے پیغام تھا

ترجمان پاک فوج کی پریس کانفرنس کسی اور کیلئے پیغام تھا
نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس ہم لوگوں کیلئے نہیں تھی، وہ کسی اور کیلئے پیغام تھا۔ وزیراعظم خود کہنا شروع ہو چکے ہیں کہ آئندہ 3 ماہ ان کی حکومت کیلئے بڑے ہی اہم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے تو آپ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی تجزیہ کار کہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی نواز شریف کیساتھ ڈیل ہو رہی ہے۔ ہمیشہ یہی کہا جاتا تھا کہ آپشنز ہی اور کوئی نہیں ہیں۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پر ہیں۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملکی صورتحال پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے واضح کہہ دیا ہے کہ کوئی ڈیل کی بات نہ کرے، چلیں ہم ایسی باتیں نہیں کرتے لیکن یہ تو کہہ سکتے ہیں ناں کہ ڈیل کے بغیر بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تو مجھے ایک ہی ڈیل نظر آ رہی ہے جو 2014ء میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور عمران خان کے درمیان ہوئی تھی۔ جس میں طے کیا گیا تھا کہ نواز شریف کو نکالنا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ ڈیل بڑی پکی جا رہی تھی لیکن اب اس میں دراڑ آ چکی ہے۔

نجم سیٹھی نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کے آثار ہمیں واضح نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ گذشتہ 7 سال سے جاری فارن فنڈنگ میں اچانک ڈرامائی موڑ آیا اور سکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خواجہ آصف کیخلاف ہتک عزت کیس میں وزیراعظم کو پیش ہونے کا حکم دے کر چھکا لگا دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ وزیراعظم کے ساتھی جرنلسٹ جو اپنے دل کی گہرائیوں سے ان کو سپورٹ کرتے تھے، اب انہوں نے اپنی بندوقوں کا رخ موڑ لیا ہے۔

پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کے حالیہ بیان پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اطلاعات ہیں کہ وہ وقتاً فوقتاً لندن کے چکر لگاتے رہے ہیں۔ اگر ان کی نواز شریف کیساتھ ملاقاتیں ہوئی ہیں تو ان کی جانب سے یہی آفر کی گئی ہوگی کہ میرا جہاز تیار ہے، آپ کو کتنے بندے چاہیں؟ جب ہوا بدلے گی تو جہانگیر ترین، مسلم لیگ (ق) اور جی ڈی اے کی جانب سے حکم کی تعمیل کی جائے گی۔

ایک اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پیش کیا جانے والا خط غیر آئینی اور غیر قانونی ہے جس پر چیئرمین اور اراکین نے کوئی سخت ردعمل نہیں دیا، اگر وہ چاہتے تو اسے پھاڑ کر پھینک سکتے تھے۔ تاہم اگر اپوزیشن چاہے تو یہ ایک اور کیس بھی کھل سکتا ہے۔