ان ہاؤس تبدیلی کے لئے نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کو انکار: 'انہیں بتا دو بندہ نہیں ملے گا، نئے الیکشن کراؤ"

ان ہاؤس تبدیلی کے لئے نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کو انکار: 'انہیں بتا دو بندہ نہیں ملے گا، نئے الیکشن کراؤ
ذرائع بتا رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی منشاء کے مطابق شہبازشریف کو "چانس" دلوانے کی ایک اور کوشش ناکام ہوگئی ہے۔  نوازشریف نے کسی بھی مرحلے پر "نون" لیگ سے موجودہ سیٹ اپ کے لئے نیا وزیراعظم دینے سے انکار کرتے ہوئے نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ مریم نواز اور شہباز شریف میں صلح کے لئے نواز شریف کی ایک اور کوشش ناکام ہوگئی ہے۔

ذرائع کے مطابق حال ہی میں لندن میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت مسلم لیگ (ن) کی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی جس میں پاکستان سے اسٹیبلشمنٹ کا پیغام لے کر جانے والے پارٹی رہنما بھی شریک تھے۔ ذرائع کے مطابق  ان میں شہباز شریف گروپ کے سرکردہ رہنما اور قائم مقام اپوزیشن لیڈر شامل ہیں جو چند روز قبل پاکستان سے دوبئی روانہ ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن کی سب سے بڑی اور پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کے قائد کو بتایا گیا کہ بجٹ منظور ہوجانے کے بعد بھی صورتحال میں بہتری یا "کپتان" کے رویے میں کوئی قابل ذکر لچک نہ آنے پر اسٹیبلشمنٹ ان ہاؤس تبدیلی کے آپشن پر غور کر رہی ہے اور اس سلسلے میں اپوزیشن ، بالخصوص مسلم لیگ (ن) کا تعاون چاہتی ہے۔ لیکن ذرائع کے مطابق نواز شریف نے پارٹی سے نیا وزیراعظم دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا "انہیں بتادیں کہ بندہ نہیں ملے گا ، نیا الیکشن کرواؤ"۔ 

سنجیدہ سیاسی حلقوں کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک کسی ممکنہ تبدیلی کے لئے شہبازشریف کے سوا دوسرا کوئی قابل قبول آپشن نہیں اور مقتدر حلقے موجودہ سیٹ اپ میں ہی کوئی تبدیلی لانے کے لئے صرف شہبازشریف کی شخصیت پر راضی ہیں یا کم از کم "کپتان" کو دباؤ میں رکھنے کی غرض سے شہباز شریف کے آپشن کو بطور threat استعمال کرنا چاہتے ہیں۔  اس لئے شہبازشریف بھی صرف وہی کریں گے جو اسٹیبلشمنٹ چاہے گی۔  مبصرین کے مطابق شہبازشریف اسی لئے اب پارٹی قائد نواز شریف کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں .

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جہاں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ ایک مشکل صورتحال میں پھنسی ہوئی ہے وہیں لیگی قیادت بھی اپنی اندرونی کشمکشِ اور مریم نواز اور شہباز شریف گروپوں کے بیانیوں کے تضاد کے باعث نہائت پیچیدہ صورتحال کا شکار ہے۔  پارٹی قیادت میں نوازشریف اور مریم نواز گروپ ملک کی بدترین معاشی اور دیگر حوالوں سے سنگین ترین بحرانی صورتحال میں کسی عبوری یا مختصر عرصے کے بند و بست کا حصہ بننے کے حق میں نہیں اور نہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر تیار ہے جبکہ پارٹی صدر شہبازشریف کسی نہ کسی طرح عمران خان سے جان چھڑوانا چاہتے اور اپنا "چانس" لینا چاہتے ہیں ورنہ ان کا اور ان کے بچوں کا سیاسی مستقبل مخدوش ہے۔  ذرائع کے مطابق شہباز شریف "ان ہاؤس چینج" کے سلسلے میں لیگی اراکین اسمبلی کے کردار کے حوالے سے بھی پر اعتماد ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا اشارہ مل جانے کے بعد ان کا ساتھ دینے میں زیادہ پس و پیش نہیں کریں گے۔

جبکہ دوسری طرف مریم نواز گروپ نہ تو موجودہ قائد ایوان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر آمادہ ہے اور نہ عوامی سطح پر احتجاجی تحریک چلانے کے لئے تیار۔ نوازشریف اپنی شرائط پر ڈٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ پہلے ان کی سزا ختم کروائی جائے اور پوری شریف فیملی کو پاکستان کے لئے safe passage دیا جائے ، پھر وہ اسٹیبلشمنٹ کی کوئی خاطر خواہ مدد کرسکتے ہیں۔  ذرائع کا خیال ہے کہ لندن میں نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے حالیہ پیغام کا مقصد بھی دراصل شہبازشریف کے حق میں پارٹی قائد کا تائیدی ووٹ حاصل کرنا تھا۔