خاں صاحب نے موسیقار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد استاد عظیم خان اور چچا استاد اسماعیل خان جے پور کے دربار سے وابستہ تھے۔ مہدی حسن کو گلوکار بنانے میں ان کے چچا استاد اسماعیل خان کا اہم کردار رہا۔ خاں صاحب کے مطابق سب سے پہلا سبق یہ پڑھایا گیا کہ سانس نہ ٹوٹے۔ کیونکہ گلوکاری کا بنیادی جز یہی ہے کہ سانس بکھرے نہیں۔ اس مقصد کو پانے کے لئے کسی اتھلیٹ کی طرح ان کی دوڑیں بھی لگوائی جاتیں۔ اٹھک بیٹھک کی بھی مشقیں ہوتیں‘ یہاں تک کہ پہلوانوں کے ساتھ کشتی بھی ریاض کا حصہ تصور کی جاتی۔
یہ بھی پڑھیے: وہ جس کے گلے میں بھگوان بولتا تھا: استاد مہدی حسن کی دس شاندار غزلیں
اس ساری کسرت کا خاں صاحب کو یہ فائد ہ ہوا کہ انتہائی کم عمری سے ہی وہ پکے راگوں کو پیش کرتے ہوئے آواز کے اتار چڑھاؤ میں مہارت حاصل کر گئے۔ شہنشاہ غزل کے مطابق عام طور پر رات میں جب سب سو رہے ہوتے، وہ تان پورہ لے کر گھنٹوں اکیلے ریاض کرتے۔ جب والد اور چچا پر مہاراجاؤں اور راجا کے دربار بند ہوئے اور ایک دن غمگین ہو کر والد نے لکڑی کی ٹال پر بیٹھ کر زندگی کی گاڑی کھینچنے کا خیال ظاہر کیا تو یہی وہ لمحہ تھا جب خاں صاحب نے سوچ لیا کہ وہ گلوکاری میں بڑا نام پیدا کریں گے۔ وہ اپنے خاندانی فن کو اور آگے لے کر جائیں گے۔
اس دوران جہاں شہنشاہ غزل نے گلوکاری کے بنیادی اسرارو رموز پر عبور حاصل کیا وہیں کھیتی باڑی، موٹر مکینک کا کام بھی سیکھنا شروع کر دیا اور پھر وہ دن بھی آیا جب انہوں نے اپنے خواب کو سچ ثابت کر دکھایا اور دنیا نے دیکھا کہ ان کا نام فن گلوکاری میں کس طرح جگمگا اٹھا۔
شہنشاہ غزل کا کہنا تھا کہ مختلف فلموں میں پس پردہ گلوکاری کرتے ہوئے وہ حد درجہ مصروف رہتے اور ایک وقت تو وہ بھی آیا جب انہوں نے مسلسل 52 گھنٹے، کراچی کے ایسٹرن سٹوڈیو میں پانچ گیت یکے بعد دیگرے ریکارڈ کرائے۔ اس دوران وہ گھر تک نہیں گئے۔ بس یخنی اور سگریٹ پی پی کر ان گانوں کی ریکارڈنگ میں رہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس دوران کسی بھی پروڈیوسر کو یہ پتہ نہیں لگنے دیا کہ وہ کسی اور کے گیت بھی ریکارڈ کرا رہے ہیں، صرف اس لئے کہیں وہ اس بات کا اعترض نہ کرے کہ ان کے گیت کی باری آنے پر خاں صاحب کی سریلی آواز نے اپنا اثر نہ کھو دیا ہو۔
خاں صاحب ایک اور دلچسپ واقعے کو یاد کرتے جب 1964 میں لندن میں وہ ملکہ ترنم نور جہاں اور سلیم رضا کے ساتھ کنسرٹس میں حصہ لے رہے تھے تو اچانک انہیں پتہ چلا کہ ایک کنسرٹ سے فارغ ہو کر انہیں فوری طور پر جرمنی کا رخ کرنا ہے۔ جس کے سفری ٹکٹ ان تک ہال میں ہی پہنچا دیے گئے۔ وہ سیدھے بھاگم بھاگ ایئر پورٹ پہنچے اور جب جرمنی میں طیارہ اترا تو سب انہیں دیکھ کر زیر لب مسکرا رہے تھے۔ تب جا کر انہیں معلوم ہوا کہ وہ جلد بازی میں کنسرٹ ہال سے ایک جوتا کالا اور دوسرا کسی اورکا لال پہن کر آ گئے تھے۔
ایک عالم تو مہدی حسن کے انداز گلوکاری کو اختیار کرتا رہا ہے لیکن خود خاں صاحب نے ایک اور گلوکار کا انداز فلم ’آئینہ‘ کے گیت ’کبھی میں سوچتا ہوں‘ میں اپنایا۔ وہ کہتے تھے کہ موسیقار روبن گھوش کے ساتھ مل کر اس پر کام کیا گیا۔ اب اس گیت میں نہ اُس گلوکار کی جھلک ملتی اور نہ ہی مہدی حسن کے انداز گلوکاری کی۔ وہ گلوکار کون تھا اس راز پر سے مہدی حسن نے کبھی پردہ نہیں اٹھایا۔
خاں صاحب نے موٹر میکنک کا باقاعدہ ڈپلوما لے رکھا تھا، گاڑیوں کا انجن کھولنے میں بھی ماہر تھے۔ گاڑیوں کی خرید و فروخت اور مرمت کا شوق اور روزگار بھی رہا۔ اسی سلسلے میں جب 1949 میں وہ بہاولپور کے نواب کے پاس جاتے تو یہاں لندن میں قائم فورڈ کمپنی کے مالک پیٹر بھی آتے۔ ایک بار خاں صاحب نے اُنہیں بتایا کہ وہ گاڑی کا سائلنسر سونگھ کر بتا سکتے ہیں کہ گاڑی کتنی چلی ہوئی ہے۔ ان کے اس دعویٰ کا امتحان لیا گیا تو مختلف گاڑیوں کے سائلنسرز دیکھ اور سونگھ کر انہوں نے کم و بیش درست کلو میٹر بتائے۔ جس پر فورڈ کمپنی کا مالک دم بخود رہ گیا اور ضد کر بیٹھا کہ مہدی حسن ان کے ساتھ لندن چلیں اور ان کی کمپنی میں ملازمت اختیار کریں۔ یہاں تک کہ انہیں اُس زمانے میں 3000 پاؤنڈ تنخواہ اور مفت رہائش اور گاڑی کی پیش کش کر دی ۔ لیکن خاں صاحب نے اسے ٹھکراتے ہوئے یہی کہا کہ وہ مجبوری کے تحت گاڑیوں کی مرمت کر رہے ہیں ورنہ ان کا خاندانی پیشہ تو گلوکاری ہے۔ وہ گلوکار بننے کے اپنے خواب کی تعبیر تلاش کر رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1977 میں لندن کے رائل البرٹ ہال میں جب وہ پرفارم کر رہے تھے تو تماشائیوں میں فورڈ کمپنی کا وہ مالک بھی بیٹھا تھا۔ کنسرٹ ختم ہونے پر جب مہدی حسن کئی پرستاروں میں گھرے ہوئے تھے تو وہ ان کے پاس آیا ا ور فرط جذبات سے چھلکتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ بولا کہ واقعی مہدی حسن کو وہ تنخواہ تو پرکشش دے سکتے تھے لیکن یہ مقام اور یہ رتبہ کسی صورت نہیں ملتا جو آج انہوں نے گلوکاری کے ذریعے حاصل کیا۔