سُر جیسے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے، دلوں پر اثر کرتی گلوکاری اور محبت میں رچی بسی شاعری کا انتخاب، سننے والوں کو ایک نئے جہاں کی سیر کراتا۔ فلمی اور غیر فلمی گلوکاری ایسی کہ دل چاہے کہ بار بار سنا جائے۔ جو گایا وہ مثال بن گیا۔ جگجیت سنگھ کا یہ تعارف کم تو ہے لیکن یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ غزل گلوکاری میں ان کا نام ہی کافی ہے۔ان کی وہ کاغذ کی کشتی کبھی بچپن کی طرف لے جاتی تو کبھی ہونٹوں سے چھونے پر گیت امر ہونے کا پیغام ملتا، تو کبھی جھکی جھکی سی نظرمیں محبت کی عکاسی ملتی، تو کبھی بات نکلے گی تو دور تلک جانے کا احساس، تو کبھی غالب کی شاعری کو اپنے انداز میں پیش کرکے دلوں کو جیتنے کا ہنر، یہی تو جگجیت سنگھ کی گلوکاری کا خاصا تھا۔
جگجیت سنگھ کے بارے میں دنیا تسلیم کرتی ہے کہ وہ غزل گلوکاری کا ایک بڑا اور معتبر نام ہیں۔ جگ موہن سنگھ کے نام سے راجستھان میں آنکھ کھولی۔ آرٹس کی ڈگری لینے کے بعد سرکاری ملازم والد کی خواہش تھی کہ بیٹا انجینئر یا بیوروکریٹ بنے لیکن انہیں موسیقی کا شوق رہا۔ محمد رفیع کے گانوں کو سنا کر سب کا دل جیت لیتے۔ گلوکاری کے شوق کے ہاتھوں مجبو ر ہو کر جالندھر کے ریڈیو اسٹیشن کا رخ کیا۔ گلوکاری کی تربیت حاصل کی اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ انہیں ریڈیو اسٹیشن میں ملازمت بھی مل گئی۔ بہتر مستقبل کے لیے بمبئی کا رخ کیا ااور پھر اسٹوڈیوز کے چکر لگا کر کام مانگنے لگے۔ وہ مختلف اشتہارات کی نغمہ سرائی کرتے وہیں شادی بیاہ کی تقریبات میں اُس دور کے مقبول گیت سنا کر باراتیوں کے لمحات کو خوشگوار کرتے۔
اسی دوران 1969میں چترا سے ملاقات ہوئی، جو اُن دنوں گلوکاری سیکھ رہی تھیں۔دونوں کی ملاقات کا احوال بھی خاصا دلچسپ رہا۔ چترا نے اسٹوڈیو سے واپسی پر انہیں گھر چھوڑنے کی پیش کش، جسے جگجیت سنگھ نے فوراً قبول کرلی۔ چترا کا گھر پہلے آتا تھا، جب وہ اپنی منزل کی طرف پہنچیں تو رسمی طور پر انہیں چائے پینے کی دعوت دی۔ جگجیت سنگھ تو سمجھیں ’کمبل‘ ہوگئے تھے۔ جنہوں نے اس پیش کش پرمعذرت نہ کی بلکہ پہنچ گئے ان کے ڈرائنگ روم تک۔ چترا چائے بنانے گئیں تو ڈرائنگ روم میں رکھے ہارمونیم پر جگجیت سنگھ نے سر اور تال ملانے شروع کیے۔ چترا، کچن میں ان کی مدھر اور رسیلی آواز سن رہی تھیں تو جیسے وہ اس گلوکاری کے سحر میں کھو سی گئیں اور پھر ملاقاتوں کا یہ دور بڑھتا ہی چلا گیا۔ دونوں قریب سے قریب ہوتے گئے اور پھر ایک دن وہ بھی آیا جب دونوں نے شادی کرلی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی شادی کی یہ تقریب انتہائی مختصر رہی۔ جی ہاں یہ صرف بیس منٹ میں نمٹ گئی، جس پر اخراجات 30روپے آئے تھے۔
دونوں نے پھر ایک ساتھ گلوکاری کرنا شروع کردی، 1976میں The Unforgettable نامی البم پیش کیا تو اس میں شامل سبھی غزلوں نے دونوں کی شہرت میں اضافہ کردیا۔ چترا کی کھنکتی ہوئی آواز اور جگجیت سنگھ کی پرسوز گلوکاری نے تو انہیں راتوں رات مقبول بنایا۔ قسمت نے ساتھ دیا تو فلموں کے لیے بھی گلوکاری کرتے رہے۔ اسی دوران گجراتی فلم میں ہیرو بننے کی پیش کش ہوئی لیکن معذرت کرلی۔ 1981 میں فلم ’پریم گیت‘ کے ایک گیت ’ ہونٹوں سے چھو لو تم‘ نے تو انہیں فلمی دنیا کی گلوکاری کا بھی معتبر گلوکار بنا دیا۔
چترا اور جگجیت سنگھ نے پھر بعد میں مزید البم پیش کیں۔جگجیت سنگھ کی شہرت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1982میں جب لندن کے رائل البرٹ ہال میں ان کا کنسرٹ ہوا تو صرف تین گھنٹے میں اس پرفارمنس سننے کے لیے کے ٹکٹ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئے۔ ہدایتکار مہیش بھٹ نے صحیح معنوں میں جگجیت سنگھ کو فلم ’ارتھ‘ میں بڑا بریک دیا۔
فلم میں ان کی گائی ہوئی غزلیں بھلا کون فراموش کرسکتا ہے۔ جن میں ’تم اتنا جو مسکرا رہے ہو، جھکی جھکی سی نظر اور کوئی یہ کیسے بتائے تو آج تک ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ 1988 میں ہدایتکار اور نغمہ نگار گلزار کی ٹی وی سیریز ’ مرزاغالب‘ جگجیت سنگھ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ غالب کی شاعری کو جگجیت سنگھ نے ڈوب کر گنگنایا۔ جگجیت سنگھ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے اس میں گلوکاری، غزل گلوکار نہیں بلکہ ایک ایسے گلوکار کی صورت میں گائی جو اردو کی محبت میں سرشار ہے۔
چترا اور جگجیت سنگھ کی مدھر اور رسیلی گلوکاری کا یہ سفر اُس وقت منقطع ہوگیا جب 1990 میں ان کا جواں سال بیٹا وویک کار حادثے کا شکار ہو کر موت کی نیند سو گیا۔ چترا نے پھر گلوکاری سے ناطہ توڑ لیا لیکن جگجیت سنگھ کایہ سفر چند مہینوں کے وقفے کے بعد جاری رہا۔ چترا اور جگجیت سنگھ کو 2009میں اُس وقت ایک اور غم سہنا پڑا جب جگجیت سنگھ کی سوتیلی اور چترا کی سگی بیٹی نے خود کشی کرلی۔
دنیا بھر میں جگجیت سنگھ نے پرفارمنس کی تو ایک عالم ان پر فدا ہوا۔ درد بھری مٹھاس میں ڈوبی ہوئی ان کی آواز بار بار سننے کو دل چاہتا۔ بے شمار ایوارڈز حاصل کیے۔ غزل گلوکاری کے بادشاہ تصور کرنے والے جگجیت سنگھ شہرت اور مقبولیت کے عین عروج پر برین ہیمبرج کا شکار ہو کر
10اکتوبر 2011کو موت کی آغوش میں جاسوئے۔ لیکن آج بھی ان کے گائی غزلیں اور گیت ذہن کو خوشگوار احساس دلاتی ہیں۔