ٹاکرے کی سیاست، صحافت اور قانون کی حرکت

ٹاکرے کی سیاست، صحافت اور قانون کی حرکت
جب سے تحریک انصاف کی مرکز میں حکومت ختم ہوئی ہے، ٹاکرے کی سیاست اور صحافت پورے زور پر ہے مگر اب تو اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے۔

گرفتار ہونے والے صحافی عمران ریاٖض نے چند دن قبل ہی باقاعدہ سٹیج پر کھڑے ہوکر بڑے ہی دبنگ انداز میں کہا تھا کہ اب ٹاکرے کے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ہم خیال صحافیوں کے نام لے کر ان سے گواہی بھی ڈلوائی کہ انہیں دستاویزات اور فلمیں دکھا دکھا کر قائل کیا جاتا رہا کہ یہ لوگ چور اور ڈاکو ہیں۔

بظاہر نام نہیں لیا مگر سیاق وسباق سے واضح ہے کہ ان کا اشارہ فوج کی موجودہ قیادت کی طرف تھا ۔ جس کا بعد میں انہوں نے نام لے کر ایک ویڈیو میں واضح پیغام بھی دے دیا۔

اسی طرح تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی دو دن قبل بڑے واضح الفاظ میں دھمکی آمیز انداز میں کہا ہے کہ اگر ان کو دیوار کے ساتھ لگایا گیا تو وہ سب کچھ بتا دیں گے۔ اور اس کے بعد دوسرے دن ہی عمران ریاض کو گرفتار کر لیا گیا جس پر عمران خان اور ان کی جماعت کی طرف سے سخت رد عمل بھی سامنے آیا ہے اور انہوں نے پورے ملک میں احتجاج کی بھی کال دی ہے۔

اس طرح کھل کر کسی ایک سیاسی جماعت اور صحافیوں کا ایک دوسرے کی حمایت کرنا اور ہم خیال ہو کر ایک ساتھ چلنا جانبدارانہ سیاست اور صحافت کی مثال ہی نہیں پیش کر رہا بلکہ یہ اتحاد برملا ایک بیانیہ پیش کر رہا ہے جس کا اظہار ان کے ہر سیاسی اور صحافتی شو میں ملتا ہے جس سے صحافت اور سیاست کی حدود کو واضح اور اصلاح کے مقصد کو ثابت کرنا ممکن نظر نہیں آرہا۔

جہاں تک ٹاکرے کی بات ہے تو اس بارے اکثر مبصرین کی رائے ہے کہ اداروں کو آج تک اس طرح کی مزاحمت کا پہلے کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا جس کا دعویٰ عمران ریاض کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کی صحافت اور سیاست ٹھیک اور جائز ہے؟

اگر تو وہ واقعی جمہوریت اور آئین کی بالادستی اور بد عنوانی کے خاتمے کی خاطر یہ مزاحمت کی سیاست اور صحافت کر رہے ہیں تو پھر ان کو آدھا سچ نہیں بلکہ پورا بولنا پڑے گا اور کسی دوسرے پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانکنا پڑے گا کہ کیا وہ جو کچھ اب کر رہے ہیں، ٹھیک ہے تو پھر جو وہ پہلے پانچ سالوں سے کر رہے تھے، وہ کیا تھا؟

کیا عمران ریاض اور ان کے ہم خیال صحافیوں کو بقول ان کے ثبوت دکھائے گئے تھے تو مخالف طرف کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تھی؟ بلکہ معید پیرزادہ نے تو چند دن قبل مطیع اللہ جان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ وہ نواز شریف کے خلاف جانے انجانے میں استعمال ہوئے ہیں اور وہ اس پر شرمندہ ہیں۔



لہذا جن سے عمران ریاض نام لے کر گواہیاں ڈلوا رہے تھے ان کے اعتراف کے بعد یکطرفہ ثبوتوں کی بنیاد پر کیا کسی کو مورد الزام ٹھہرانے اور اس پر ٹاکرا لگانے کی صحافت پر بضد رہنا اصولوں پر مبنی کہا جا سکتا ہے؟ اور پھر یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ اگر یہ ثبوت کسی کو گناہگار ثابت کرنے کے لئے اتنے ہی مضبوط تھے تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے تھا تاکہ عدالتوں کو حقائق تک پہنچنے میں آسانی ہوتی۔

یہ گرفتاری قانونی کارروائی کے تحت عمل میں لائی گئی ہے اور اگر ان کے پاس موقف کے حق میں شواہد موجود ہوں تو ان کی خواہش کے مطابق دستاویزات کو عدالت میں پیش کرکے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو اصولوں سے ہم آہنگ اور اپنی بے گناہی کو ثابت کرکے اپنے صحافتی قد کو اور بھی اونچا کرنے کا اچھا موقع ہے۔

تحریک انصاف کو بھی چاہیے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو صرف عدم اعتماد سے نہیں بلکہ ان کے 2014ء کے دھرنوں کے مطالبات سے لے کر اب تک کے تمام ہر کسی کی طرف سے اٹھائے جانے والے الزامات اور تحفظات پر ایک ٹرتھ کمیشن کا مطالبہ کرنا چاہیے اور اس کا مقام چوک چوراہے نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور عدالتیں ہیں۔

اگر ٹاکرا لگانا ہی ہے تو وہاں لگانا چاہیے اور تمام ثبوتوں کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کرنا چاہیے تاکہ پوری قوم کو حقائق کا علم ہو کہ کس کے ساتھ کیا زیادتی ہوئی ہے اور کس کو ناجائز طریقے سے مدد فراہم کی جاتی رہی ہے۔

ٹاکرا اس سوچ کے ساتھ لگانا چاہیے جو آئین اور قانون کے خلاف ہے اور اگر حمایت اور جانبداری کرنی ہی ہے تو اس سوچ کی کرنی چاہیے جو ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرنے کے لئے میدان عمل میں اتری ہوئی ہے۔ اتحاد اور الحاق کی بنیاد مفادات نہیں بلکہ نظریات ہونے چاہیے اور مخالفت کا معیار حق اور سچ کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

تمام صحافت اور سیاست سے منسلک افراد اور گروہوں کو اس بات سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ ہجوموں کے اکٹھا کر لینے کو کسی موقف کی درستگی، غلطی یا سچائی کی دلیل نہیں مانا جا سکتا۔ ہجوم تو مداریوں کے فن اور کرتب دیکھنے کے لئے بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ سیاست اور صحافت میں سچ اور جھوٹ کو ثابت کرنے کی دلیل آئین، قانون اور شواہد ہوتے ہیں جن کا آئین نے ایک طریقہ کار وضع کیا ہوا ہے اور اخلاص یہ تقاضہ کرتا ہے کہ اس کو اپنایا جائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ کشمکش کی صورتحال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اب سیاسی جماعتوں سے لے کر اداروں تک کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ آئین وقانون کی حکمرانی سے ہی معاشی اور سیاسی استحکام ممکن ہے لہذا اب آئے روز سوشل میڈیا اور چوک چوراہوں میں الزامات اور انکشافات سے ملک وقوم کو رسوا کرنے کا سلسلہ بند کرنا چاہیے اور سب کو مل بیٹھ کر اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور اس بارے مستقبل کا کوئی مستحکم لائحہ عملی بنانا چاہیے جس سے ان غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدامات کو ہمیشہ کے لئے بند کیا جا سکے۔

بات صرف معاملے کو سمجھنے اور سوچ کو بدلنے کی ہے۔ تمام وسائل اور اختیارات دھرتی ماں کے تفویض کردہ ہیں اور ان کا استعمال ایک ذمہ داری ہے جس کے متعلق ہر کوئی ریاست کے حقیقی وارث عوام اور مملکت کے حقیقی مالک خدا کے سامنے جوابدہ ہیں اور ان وسائل اور اختیارات کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے والوں کے بارے ہماری تاریخ حوصلہ شکنی اور رسوائی کے واقعات سے بھری پڑی ہے جن سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک اعلیٰ شہرت کے حامل سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کمیشن بنے جو پاکستان کے واقعات کی تاریخ کی روشنی میں اصلاحات کے بارے سفارشات مرتب کرے جن سے سول بالا دستی کو یقینی بنایا جا سکے اور تمام سٹیک ہولڈرز اپنے باہمی اختلافات اور رنجشیں بھلا کر ملک و قوم کی بہتری کی خاطر ایک ہو کر ان اصلاحات کو عملی جامہ پہنائیں۔

حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اداروں کو تحفظ فراہم کرے اور ان پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیق کو عمل میں لا کر جھوٹ اور سچ کو واضح کرکے اس طرح کے عوامل کا سدباب کرے۔ اور اس کے لئے قوم کو بھی چاہیے کہ جب تک تمام سٹیک ہولڈرز موجودہ صورتحال پر گرینڈ ڈائیلاگ کے زریعے سے حل کی طرف مائل نہیں ہوتے کسی بھی صحافتی یا سیاسی ٹولے کی طرف سے ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام پھیلانے کے اقدامات کی سختی سے مخالفت کریں اور حکومت کے مثبت اقدامات کی حمایت کریں تاکہ ترقی کے پہیے میں کوئی توقف نہ ہو۔