ملک ریاض کی ان سنی کہانی: سکوٹر پر بیٹھ کر دو روپے کا آدھا برگر کھانے والے ریاض کنگلے نے ملک کے بڑوں کو کیسے اپنی جیب میں کیا

ملک ریاض کی ان سنی کہانی: سکوٹر پر بیٹھ کر دو روپے کا آدھا برگر کھانے والے ریاض کنگلے نے ملک کے بڑوں کو کیسے اپنی جیب میں کیا
لاہور کی "سولہ سو ایکڑ سکیم" جو بعد میں علامہ اقبال ٹاؤن کہلائی، اس میں پہلی بار جانے کا اتفاق منفرد فلم ڈائریکٹر بنگالی نژاد نذرالاسلام دادا کے انٹرویو کے لئے ہوا۔ واپسی پر مون مارکیٹ میں پرانے رحیم سٹور کے باہر ایک جوان شخص کاٹن کا اجلا سفید کرتا پہنے سیخ کباب کے"اڈے" پر کھڑا کباب لگا رہا تھا بعد میں جس کا باربی کیو ریسٹورنٹ "عارف ہوٹل" مون مارکیٹ کا سب سے بڑا اور سب سے مشہور ریسٹورنٹ بن گیا تھا۔ یہ38 / 37 سال پرانی بات ہے۔ ڈیڑھ دو سال قبل رات کو پریس کلب سے واپسی پر اپنے کریم بلاک کی مارکیٹ کے قریب کُھلنے والے ایک نئے باربی کیو ریستوران  پر میرا جانا شروع ہوا تو ایک روز کیش کاؤنٹر پر ادائیگی کرتے وقت مجھے کاؤنٹر پر بیٹھے اپنے قریباً ہم عمر شخص کا چہرہ پہچانا پہچانا سا لگا جسے میں ہر بار ادائیگی کرتے وقت دیکھتا تو تھا لیکن کبھی غور نہیں کیا تھا۔

خیر میں نے اسے پہچان لیا ، یہ وہی عارف صدیقی تھا جسے میں نے 83 / 1982 میں ایک چھوٹے سے کباب اڈے کے کاریگر اور مالک کے طور پر دیکھا تھا . گزرے زمانے کی یادیں تازہ کرتے ہوئے عارف صدیقی نے کہا "پہلا‍ں میں برگر لائے سن، ایہہ افضال چٹا تے ملک ریاض ... بحریہ ٹاؤن آلا، دونویں کنگلے رات نوں لیٹ سٹوڈیو توں سکوٹر تے آؤندے ہوندے سن ، پنج روپے دا اک برگر دونوں ڈھائی ڈھائی روپے پا کے لینا تے ادھا ادھا کھا لینا۔ "

(فلم ایکٹر افضال چٹا اور بحریہ ٹاؤن والا ملک ریاض رات گئے سکوٹر پر فلم سٹوڈیو سے میرے اڈے پر بھوک آتے ، تب ایک برگر پانچ روپے کا ہوتا تھا ، دونوں ڈھائی ڈھائی روپے ملا کر آدھا آدھا برگر کھا لیا کرتے)

عارف صدیقی نے ان کے حوالے سے اور بھی بہت سی یادیں تازہ کیں کہ کس طرح یہ دونوں لاہور میں قدم جمانے کی تگ و دو کر رہے تھے اور افضال چٹا ملک ریاض کو ساتھ لے کر کس طرح فلم سٹوڈیوز کے چکر کاٹتا تھا .

یہی ملک ریاض جسے ممتاز صحافی ٹی وی اینکر سید طلعت حسین نے اپنے کالموں میں کبھی " ملک " ریاض نہیں بلکہ ہمیشہ ریاض ٹھیکیدار لکھا ، جب " جناح " اخبار نکال رہا تھا ، انہی دنوں میں سینیئر صحافی مجیب الرحمن شامی ، جناب قدرت اللہ چوہدری اور دو تین دیگر احباب کے ساتھ پرل کانٹی نینٹل میں ایک ڈنر میں شریک تھا۔  باہر ہال میں چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے کی شادی کی تقریب تھی کہ وہاں سے گزرتے ہوئے ملک ریاض پر شامی صاحب کی نظر پڑی تو آواز دے لی۔

 شامی صاحب نے ان کے روزنامے بارے پوچھا تو ریاض ٹھیکیدار کہنے لگا کہ بس زرا فرنٹیئر میں پرابلم ہو رہا تھا، اے این پی کے لوگ لفط " جناح " سے الرجک ہیں اس لئے پشاور میں اخبار جلا دینے کی دھمکیاں دے رہے تھے " میں اخبار نال پلاٹ لا دتا ، پٹھان سدھے ہوگئے " ریاض ٹھیکیدار بڑے فخر سے اپنی success story سناتے ہوئے کہہ رہا تھا میں نے جب اپنے نئے روزنامہ کی ہر کاپی میں رہائشی پلاٹ کا انعامی کوپن رکھنے کا اعلان کیا تو فرنٹیئر والوں کو بھی بآسانی رام کرلیا . گپ شپ کے دوران جب میں نے ایک سادہ سا سوال کیا " آپ کے ہاؤسنگ پراجیکٹ کے نام میں لفظ بحریہ کیوں شامل ہے؟ " تو ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ٹھیکیدار ریاض نے گردن موڑ کر بڑے غور سے میری طرف دیکھا تھا۔

 

پھر آصف علی زرداری جب بھٹو اور بےنظیر کی پیپلز پارٹی پر قبضہ کرکے صدر پاکستان بن جانے میں کامیاب ہوگیا تو یہی ٹھیکیدار ریاض پریذیڈنسی میں ان کے کمرے میں موجود تھا۔ .

شائد اسی ڈھب کے کردار آصف زرداری کو چاہئیں تھے ، ایک طرح سے یہی زرداری کی حکومت چلارہا تھا جو آئے روز اس سے صومالیہ کے بحری قزاقوں کو بھاری تاوان ادا کروا کے مسافروں کو رہا کرواتا ، یہ اس قدر زعم میں آگیا تھا کہ ایوان صدر کی ایماء پر نہایت طاقتور "حاضر سروس" چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری سے ٹکر لینے پر تُل بیٹھا تھا لیکن جب 2013 کے الیکشن کے نتیجے میں " نون " لیگ کی حکومت آئی تو اس کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں اس کے ساتھ ایسے "سیدھے" ہوئے کہ یہ سب کچھ سمیٹ کر پنجاب سے بھاگ گیا اور جا کر کراچی میں ڈیرے ڈال لئے۔

 

اور پھر زرداری کی سندھ حکومت نے اس پر نوازشات کی بارش کر دی اور جو جگہ اس نے مانگی ، سارے قانون ضابطے بالائے طاق رکھ کے الاٹ کردی۔  حتیٰ کہ بن قاسم پارک میں ٹھیکیدار ریاض کو کمرشل تعمیرات تک کی اجازت دے دی گئی تھی ، اور اسی " میلے " میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے بالمقابل " آئیکن ٹاور " ابھرا جو ملک کا سب سے بلند کثیر المنزلہ پلازہ بتایا جاتا ہے ۔

 

ابھرتا بھی کیسے نہیں کہ جب بلاول بھٹو زرداری کی پہلی بار سیاسی لانچنگ کے لئے نشتر پارک میں جلسہ رکھا گیا تو بلاول ٹھیکیدار ریاض ہی کے ہیلی کاپٹر میں جلسہ گاہ میں اترا تھا جبکہ لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں کنالوں پر تعمیر کر کے " بلاول ہاؤس" پہلے ہی عوامی جماعت کی اعلیٰ قیادت کو تحفے میں دیا جاچکا تھا۔  شوقین سابق صدر مملکت کے گھوڑوں کے لئے بنا کر دیا گیا اصطبل اس کے علاوہ ہے۔ .

 

ملک کا سب سے بڑا میڈیا سیٹھ میر شکیل الرحمن جو طالبان کے ڈر سے چھپ کر  دبئی میں بیٹھا رہا تھا جب طویل عرصہ بعد وطن واپس آ کر پہلی بار اپنے لاہور کے دفتر آیا تو جس بلٹ پروف گاڑی میں آیا وہ ٹھیکیدار ریاض ہی نے فراہم کی تھی ۔لاہور کینٹ میں مین بلیوارڈ پر موجودہ مال آف لاہور والا وسیع و عریض پلاٹ مجوزہ " شیریٹن " ہوٹل متنازعہ بنا دیئے جانے کے بعد بالآخر ٹھیکیدار ریاض ہی نے خریدا جس کی بابت اس نے ایک بار کسی سے کہا تھا " میں اس کے لئے اب تک اعلیٰ ترین فوجی افسران کو مال لگا چکا ہوں ، ایک گیا تو اگلے آنے والے کو لگانا پڑا "

 

اس سارے سفر میں اس کے بچوں کے بھی وہی لچھن سامنے آنے لگے جو غربت سے اٹھ کر typical نودولتیے مڈل کلاسیوں کے بچوں کے ہوتے ہیں ، پہلے صاحبزادے نے اسلام آباد میں کار ریس کے دوران ایک بندہ کچل دیا ، پھر خبر آئی کہ اس نے بالی وڈ کوئین آئشوریا رائے کے ساتھ کسی ریستوران میں 14 لاکھ میں چائے کا ایک کپ پیا ہے۔