’اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے سرگرم اپنی منزل اور مستقبل کے لیے کو شاں ہوتے ہیں‘
کہاں سے آغاز کیا اور کہاں تک پہنچے۔ پاکستان کا سب سے بڑا اخبار ’’ڈان‘‘ اظہر جعفری کی تصویر کا مرہون منت تھا۔ جو کام دو تین اور چار کالمی خبر نہ کرسکے وہ اظہر جعفری کی تصویر سے ممکن ہوا کرتا تھا۔ ’ڈان‘ کا ہر ایک قاری اظہر جعفری کی تصویر کا منتظر رہتا تھا۔
اظہر جعفری عقیدے کا نہیں جذبے کا آدمی تھا ۔انسان دوستی اور بے لوث محبت اس کا خاص وطیرہ تھا۔ اُس نے کام کے لیے کبھی کسی کی خوشنودی یا خودنمائی نہیں کی بلکہ کام خود چل کر اُس کے پاس آتا تھا۔ کسی بھی صحافی سے زیادہ باخبر اور علم رکھنے والا جسے حالات کا اندازہ اُن تمام اندیشوں سے ہو جایا کرتا تھا جو درپیش ہوتے تھے۔
لاہور پریس کلب میں راحت ڈار اور میں ہمیشہ اُن کے منتظر رہتے تھے۔ میری اُن سے دوستی موسیقی اور گیتوں سے خاص شغف کی وجہ سے تھی۔ وہ بڑے اہم عہدوں پر فائز شخصیات کے قریب رہے مگر کبھی اُن سے ذاتی مفاد کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے سر جھکانے سے بھوکا رہنا زیادہ بہتر ہے، جو کچھ خدا نے دیا ہے وہی کافی ہے۔ اپنے اکلوتے بیٹے عون جعفری کے کندھے پر کیمرا رکھتے ہوئے اُسے اپنی پہچان اپنے باوصف بنانے کی وصیت کی تھی نہ کہ اُن کے نام کو سفارش کے طور پر استعمال کرنے کے لیے کہا تھا۔
راہیِ عدم ہونے سے پہلے انہیں اس بات کا ملال تھا کہ اُن کا پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ چوری ہو گیا تھا جو اُن کی زندگی بھر کی محنت کے اعتراف کی علامت تھا۔ ان کے گھر میں چوری ہوئی اور چور یہ ایوارڈ لے جانا بھی نہ بھولے۔ حکومت کو چاہیئے کہ یہ ایوارڈ دوبارہ اُن کی الماری میں موجود دیگر اعزازات کے درمیان رکھوائے۔
اظہرحسین جعفری کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے عون جعفری نے اپنے قابلِ فخر والد محترم کی بنائی گئی تصاویر پر مشتمل کتاب منظرعام پر لانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس مقصد کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ مرحوم آئی اے رحمن تھے اور کمیٹی کے دیگر اراکین میں محمد تحسین اور عامر سہیل بھی شامل تھے ۔مرحوم آئی اے رحمن نے جعفری صاحب کی بنائی گئی تصاویر کی آرکائیوز میں سے ایک انتخاب ترتیب دیا تھا۔ اب کتاب اشاعت کی منتظر ہے مگر تاحال اس کا اسپانسر موجود نہیں ہے۔ حکومتِ پاکستان کے کئی ایک ادارے کتب کے نام پر موجود ہیں جن کے پاس لاکھوں روپے کے فنڈز ہوتے ہیں ۔اظہر حسین جعفری کی تصویری البم کا ذمہ بھی کسی سرکاری ادارے کو اٹھانا چاہیئے اور اس کی تمام شرائط وضوابط اُن کے بیٹے عون جعفری کے ساتھ طے کرنی چاہیئں۔ اظہر حسین جعفری فاؤنڈیشن کا قیام ایک اور اہم کام ہے جو فوٹو جرنلسٹس کے ایک قطب نما کی حیثیت رکھے گا ۔ اسی فاؤنڈیشن کے تحت اظہرحسین جعفری ایوارڈ کا اجرا بھی ممکن ہو گا۔
تاہم اظہر جعفری پر جتنا لکھا جائے کم ہے، وہ بہت باکمال اور باکردار انسان تھے، ان کی آپ بیتی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ میرے ساتھ ایک دو نشستوں کے بعد جب بھی ان سے اس موضوع پر بات ہوتی تو وہ پنجابی میں کہتے کہ ’چھڈ یار ایہہ وی کوئی کم اے ، چل اُٹھ وجاہت مسعود ول چلیے‘۔
آواز میں کھنک ،باتوں میں دھنک، چہرے پہ چمک، چشم روشن دلِ ماشاد، خواب جو وہ دن کے اُجالے میں دیکھا کرتا، تصویر کو تصویر بنانے کا ہنر خوب جانتا تھا، زندگی کے حُسن کو بخوبی اپنے کیمرے کی ریل پر بخوبی اتارتا تھا، میں آج بھی اُس کی آواز اور قہقہے کو سنتا ہوں کہ، خوشبو آپ تعارف ہوتی ہے اپنا۔
طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔